زمانہ طالب علمی میں پریم چند کا افسانہ ''پنچایت‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ ذاتی وجوہ کی بنیاد پر پنچایتی نظام سے فوری انصاف کا حصول، بہت دلکش تصور تھا ۔ پریم چند نے کہانی کے ذریعے، عدل و انصاف کے ایسے لافانی اصول مرتب کیے کہ آج تک ذہن پر نقش ہیں۔ انصاف کیا ہوتا ہے اور منصف کی ذمہ داری کیا ہے، اس افسانے میں سب کچھ تھا۔
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ہماری نصابی کتابوں میں تطہیر کا عمل شروع نہیں ہوا تھا اور ہمیں دینیات کی تعلیم کے ساتھ، غیر مسلموں کی لکھی ہوئی کہانیوں کے ذریعے بھی انسانی رشتوں کی عظمت سمجھائی جاتی تھی۔ اس افسانے میں دو مرکزی کردار تھے۔ شیخ جمن اور الگو۔ ایک مسلمان دوسرا ہندو، دونوں پرانے دوست ۔ الگو پنچایت کا سربراہ بنتا ہے تو فیصلہ شیخ جمن کے خلاف ہوتا ہے۔ برسوں پرانے تعلقات دشمنی میں بدل جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد شیخ جمن کو الگو کے مقدمے میں پنچایت کا سربراہ چنا جاتا ہے۔ یہ حساب چکانے کا موقع تھا مگر منصف کی کرسی پر بیٹھ کر شیخ جمن دشمنی بھول جاتا ہے۔ فیصلہ الگو کے حق میں ہو تا ہے۔
افسانے کے مرکزی کردار الگ مذہب رکھتے ہیں۔ مگر پنچ یا جج کے عہدے پر انصاف اُن کا مذہب بن جاتا ہے۔ ہندو کردار کے لیے جملہ تھا، ''پنچ میں پرماتما بستے ہیں‘‘ اور مسلمان کردار کے لیے کہا گیا، ''پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔‘‘ یہی افسانے کا مرکزی خیال تھا۔ پریم چند قانون کے طالب علم تھے اور نہ اُنہیں عدالتی امور سے واسطہ تھا۔ درس و تدریس سے وابستہ، سکول میں پڑھاتے تھے۔ البتہ ایک لکھاری کے طور پر اُن کی نظر بہت گہری تھی۔ انسانی نفسیات اور معاشرے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔
منصف کی ذمہ داری کے حوالے سے ماہرین قانون نے بھی رہنما اُصول مرتب کئے۔ اُن میں انگلستان کے چانسلر بیکن بھی شامل ہیں۔ وہ 1561ء میں پیدا ہوئے اور 1626ء میں انتقال کر گئے۔ انگلستان کے اٹارنی جنرل اور لارڈچانسلر رہے۔ عدالتی نظام کو صحیح خطوط پر اُستوار رکھنے کے لئے ان کا کہنا تھا، "An overspeaking judge is no well tuned cymbal" اس جملے کا معنوی ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ضرورت سے زیادہ گفتگو کرنے والے جج کی باتیں بے وزن ہوتی ہیں۔
اسی طرح پالس سی بی (Palles C B) نے یہی بات مختلف انداز میں کہی۔ وہ چالیس سال تک آئر لینڈ کے سولسٹر جنرل ، اٹارنی جنرل اور جج رہے۔ اُن کا انتقال 1920ء میں ہوا۔ اُن کا کہنا تھا، "A judge who opens his mouth closes his mind" یہ الفاظ موتیوں میں تولنے کے قابل ہیں۔ اِس کا معنوی ترجمہ ہے کہ جج بولنے کے لئے منہ کھولے تو دماغ بند ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت میں جج کے بولنے پر پابندی ہے یا خدانخواستہ جج کے اندر کوئی ایسا برقی آلہ نصب ہے کہ اِدھر اُس نے بولنے کے لئے منہ کھولا، اُدھر منہ سے دماغ کا کنکشن ٹوٹ گیا۔ حتی الوسع منہ بند رکھنے کی یہ ہدایت سبق دیتی ہے کہ جج آمدہ شہادت پر ہی توجہ رکھے تاکہ انصاف، قانون کے دائرے سے باہر نہ نکل جائے۔ زبان بند رکھنے کی عادت خود نمائی کے زہر کا تریاق ہے۔
پریم چند نے اپنے افسانے ''پنچایت ‘‘ میں ایک جملہ لکھا ہے جو کسی بھی منصف کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ لکھتے ہیں ''یہ ذمہ داری کا احساس ہے ، یہ احساس ہماری نگاہوں کو وسیع کر دیتا ہے اور زبان کو محدود۔‘‘ پریم چند نے انصاف اور منصف کے حوالے سے بہت گہری بات کہی۔ پہلی بار پڑھتے وقت میرے ذہن میں اس جملے کا مطلب نہ سما سکا۔ بار بار پڑھا۔ اُستادوں سے رہنمائی طلب کی۔ صاحب علم لوگوں نے بتایا کہ اگر منصف کی نگاہ وسیع ہو جائے تو وہ تعصبات اور گروہ بندی سے بے نیاز اور بالا تر ہو جاتا ہے، جو انصاف کی بنیادی شرط ہے۔ اسی طرح ''زبان کو محدود‘‘ کرنے پر غور کیا تو پتا چلا کہ یہ منصف کے لیے ایک اہم ہدایت ہے۔ مقدمات کی سماعت کے دوران اپنی ذات کے اظہار پر رضاکارانہ پابندی ایک کوڈ آف کنڈکٹ یا ضابطۂ اخلاق ہے۔ یہ پابندی اس لیے ضروری ہے کہ شہرت کی طلب انسان کی فطری کمزوری ہے۔ پریم چند کو داد دیجئے کہ اُس نے افسانہ ''پنچایت‘‘ سو سال پہلے لکھا تھا۔ اُس وقت آج کا فعال میڈیا موجود نہ تھا جو اس انسانی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کے لئے ہر وقت بے تاب رہتا ہے۔ زندگی میں نام کمانے کی آرزو کسے نہیں ہوتی۔ اسے قابو میں نہ رکھا جائے تو یہ پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔ میڈیا کے مے خانے میں جو آبِ نشاط انگیز میسر ہے اُس کی تاثیر سمندری پانی سے مختلف نہیں۔ گھونٹ گھونٹ پیتے رہیں یا ساغر لنڈھاتے جائیں، یہ پیاس فزوں تر ہوتی جائے گی۔
انسانی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کے لئے مقتدر اداروں کے پاس بہت حربے ہوتے ہیں۔ ضیاء الحق نے عدالت کی بخشی ہوئی طاقت سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو قائم مقام صدر کا عہدہ دیا۔ وہ جسٹس انوارالحق کو قصرِ صدارت میں بٹھا کر لمبے عرصے کے لئے بیرون ملک چلے جاتے۔ کیپٹن اظہر ،صدارتی باڈی گارڈ کے انچارج ، گو رنمنٹ کالج میں ہمارے کلاس فیلو تھے۔بھٹو کی پھانسی کے بعد ملے تو قصہ سنایا۔ ضیاء الحق کی ہدایت تھی کہ چیف جسٹس صاحب کو مکمل پروٹوکول دیا جائے۔ قصرِ صدارت میں اُن کی آمد پر صدارتی باڈی گارڈ کا سجا سجایا خوبصورت دستہ، دُلکی چال میں رقصاں گھوڑوں کے ساتھ اُنہیں گارڈ آف آنر دیتا۔ وہ مسحور ہو جاتے۔ یہ تقریب ٹیلی وژن پر نشر ہوتی۔ واپسی پر ضیاء الحق کرید کرید کر کیپٹن اظہر سے پوچھتے کہ چیف جسٹس نے پروٹوکول کو کتنا انجوائے کیا۔
انا کی تسکین کا یہ کھیل اُس وقت تک جاری رہا جب تک بھٹو کو پھانسی نہ ملی۔ اُس کے بعد ''نکل جاتی ہے جب خوشبو تو گل بیکار ہوتا ہے‘‘، ضیاء الحق اپنا PCO لے آئے۔ انوارالحق کی پھولی ہوئی انا تنزلی کی تذلیل قبول نہ کر پائی۔ فراغت کے دنوں میں وہ نیپا میں لیکچر دینے آئے۔ ضیاء الحق اور عدلیہ کے تعلق پر ایک دل جلے نے منیر نیازی کا یہ شعر اُن کی نذر کیا۔
شہر میں وہ معتبر‘ میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اُس نے کیا
سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس صفدر شاہ نے بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ عوام کو کبھی پتا نہ چلا کہ اُن پر پاکستان کی زمین اتنی تنگ کیوں ہو گئی کہ وہ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے افغانستان کے راستے ملک سے فرار ہوگئے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم ، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے سسر نے بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا ۔ اُنہوں نے کوئی کتاب تو نہیں لکھی مگر ٹیلی وژن پردبے لفظوں میں اُس دبائو کا اعتراف کیا جس بنا پر وہ بھٹو کی پھانسی کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور ہوئے۔
ایوانِ انصاف سے جڑی جن شخصیات نے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں متنازعہ فیصلے کیے ، اُنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے تجربات تحریر کئے نہ کوئی انٹرویو دیا ۔ قوم منتظر ہے کہ کبھی اُنہیں اعتماد میں لیا جائے کہ اِن فیصلوں کے محرکات کیا تھے؟ کیا ضمیر کی آواز سنی گئی تھی یا وجوہات کچھ اور تھیں؟ ہمارے ہاں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ بیتی صرف اس لئے لکھی جاتی ہے کہ الزامات کے داغ دھوئے جائیں۔ کمزور لمحوں کی پردہ پوشی کی جائے۔شاید کبھی ایسا دن دیکھنا بھی نصیب ہو کہ ماضی کے اہم فیصلوں کا دیانتدارانہ پوسٹ مارٹم قوم کے سامنے آئے۔
عدلیہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ کیا جسٹس منیر کو اندازہ تھا کہ مولوی تمیزالدین کیس میں اُن کے فیصلے کو پاکستان کی عدلیہ کے علامتی (Hall of shame) ''جائے شرمندگی‘‘ میں جگہ ملے گی۔ جسٹس منیر نے ریٹائرمنٹ کے بعد ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ایک کتاب (From Jinnah to Zia) ''جناح سے ضیاء تک‘‘ لکھی۔ کتاب میں قائد اعظم کے ساتھ ذاتی تعلق کا تذکرہ تو بہت فخر سے ہوا مگر یہ توفیق نہ ہوئی کہ اُن محرکات اور حالات کا ذکر کیا جاتا جس نے اُنہیں مجبور کیا کہ وہ قائداعظم کے ساتھ اپنا فکری ناطہ توڑ کر، نظریۂ ضرورت پر ایمان لے آئے۔