انسانوں سے معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ انسان بنیادی اس کی اکائی ہے۔ انسان کو معاشرے کی ضرورت ہے اور معاشروں کو انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ آزادانہ ارتقا پاتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔آزاد معاشروں کی بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان دوست ہوتے ہیں۔ آزاد معاشرے متعصب نہیں ہوتے بلکہ ان کا حسن تنوع پسندی میں ہوتا ہے۔ معاشرے متوازن رہیں تو ان سے ان گنت امکانات پھوٹتے ہیں جن سے ترقی و خوشحالی کا سفر روشن رہتا ہے۔ توازن کھو جائے تو معاشرے ویران ہونے لگتے ہیں۔ جس طرح فرد کا حسن اس کی آزادی و خوشحالی میں ہے بالکل اسی طرح انسانوں سے وجود میں آنے والے معاشروں کا حسن بھی آزادی و خوشحالی میں ہی ہے۔
ہر معاشرے میں دو شعبے ایسے ہیں جن پر اس کی ترقی و استحکام کا دارومدار ہے۔۔۔۔سیاست اور معیشت۔ سیاست کا مقدمہ طاقت میں تعمیری توازن ہے اور معیشت کا مقدمہ وسائل کی منصفانہ اور فائدہ مند تفویض (allocation) ہے۔ سیاست میں اگر طاقت کا تعمیری توازن قائم نہ ہو تو اقتدار و اختیار کی رسہ کشی معاشرے کے استحکام کو برباد کر دیتی ہے۔ اسی طرح اگر معیشت میں وسائل اجارہ داری کی نذر ہو جائیں تو پیداواری صلاحیتیں پسماندہ رہ جاتی ہیں۔ کامیاب معاشرے وہی ہیں جو ان دونوں میں توازن کا مقدمہ طے کر کے چلتے ہیں۔ معیشت خود رَو سبزے کی طرح ہوتی ہے کیونکہ یہ شہریوں کے درمیان اشیا و خدمات کے آزادانہ تعاون و تبادلے سے وجود میں آتی ہے۔ معیشت ناگزیر ہے کیونکہ اس پر انسان کی مادی بقا کا انحصار ہے۔ جہاں بھی بہتر ماحول ملا اس کے بیج امکانات کی شکل میں پھوٹتے جاتے ہیں مگر جہاں سیاست کے گھوڑے میدان ہی روند رہے ہوں وہاں اس کی خوشنما افزائش ناممکن ہے۔
سیاست میں توازن کے لئے انسانی سماجی ارتقا نے اب تک ہمیں جو بہترین متبادل دیے ہیں ان میں ایک جمہوریت ہے یعنی شہریوں کا حقِ انتخاب۔ دوم: سیکولرازم ہے یعنی ریاست ایک انتظامی بندوبست ہے، نظریاتی یا مذہبی اجارہ داری نہیں۔ سوم: تنوع پسندی ہے یعنی تمام شناختوں کا معاشرے میں احترام مقدم ہے اور ریاست تمام شناختوں کی نمائندہ ہے۔ کامیاب سیاست کو متحرک اور ہوشیار سول سوسائٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو شخصی آزادیوں، مساوات اور انصاف کے مقدمہ میں حساس اور ذہین ہو۔ جب سیاست و معیشت اپنے اپنے دائرۂ کار میں مؤثر انداز سے کام کرتی ہیں تو معاشرے انسان دوستی، ترقی، خوشحالی اور تہذیب و تمدن کی طرف بڑھتے ہیں۔
پاکستان کا آئین بھی سیاست میں توازن اور اعتدال پسندی کی راہ دکھاتا ہے۔ شہریوں کے حق انتخاب کی اساس پر قائم پارلیمان، ریاست میں عوام کے اقتدار اعلیٰ کی نمائندہ ہے۔ عدلیہ انسانی حقوق اور انصاف کی ضامن ہے۔ تمام ادارے آئینی طور پر اپنے اپنے دائرۂ کار کے پابند ہیں۔ شہریوں کی نمائندگی کا سیاسی حق سوائے پارلیمان کے کسی اور ریاستی ادارے کے پاس نہیں۔ بیوروکریسی ہو یا مسلح افواج، سیاسی قیادت کے ماتحت ہیں اور سیاسی قیادت عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ اس سلسلے میں آئین واضح ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ آئین کی بالادستی قائم ہوتی، سیاسی استحکام و توازن کو فوقیت ملتی اور معیشت و ثقافت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ ملک کی ساری تاریخ اقتدار و اختیار کے لیے سیاسی رسہ کشی کی داستان سناتی ہے۔ ہنوز اجتماعیت کی ساری توانائیاں اس میں ضائع ہو رہی ہیں۔ اس کا نقصان کون اٹھا رہا ہے؟ اس ملک کے شہری، ان سے وجود میں آنے والا معاشرہ ، ہماری معیشت ، ثقافتی اقدار اور محفوظ مستقبل کے امکانات (جنہیں پنپنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔)
اس وقت ملک کی آبادی ساڑھے انیس کروڑ ہے۔ ایک تہائی آبادی غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ اوسط پندرہ افراد روزانہ کی بنیاد پر ٹریفک حادثات میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ تعلیم و صحت کے اشاریے ہمیں غمزدہ کر دیتے ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ دنیا میں اپنا وقار کھو رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری میں ہم ایک طرز کی تنہائی میں چلے گئے ہیں۔ دو طرف کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔ بلوچستان و فاٹا لہولہان ہیں۔ انسانی حقوق، مساوات اور انصاف کی حالت دگرگوں ہے۔ مایوسی اور ڈپریشن کے سبب شہری نفسیاتی طور پر بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بچوں کے اغوا کی افواہوں نے شہریوں کو اپنے گھر کی چاردیواری میں بھی بے آرام کر رکھا ہے۔ امن و امان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہما ری تنوع پسندی فرقہ وارانہ فسادات کے سبب مرجھائی ہوئی ہے مگر ہنوز سیاسی اجتماعیت بے سمتی کا شکار ہے۔ رجحانات اور ترجیحات میں شہریت کی مسرت اور خوشحالی کا عنصر مفقود ہے۔ ایک ادارہ چاہتا ہے کہ داخلہ و خارجہ پالیسی کے فیصلے وہ کرے، عوامی اقتدار چاہتا ہے کہ اگر عوام کے سامنے وہ جوابدہ ہیں تو اختیارات بھی اسی کے پاس ہوں۔ اسی حکومت کو دیکھ لیں، تھوڑی سی مستحکم ہوتی ہے تو پھر کوئی شکاری گھات لگائے حملہ آور ہوتا ہے۔ عوامی نمائندگی پر قائم حکومت کی کوشش اس صورت میں محض یہ رہ جاتی ہے کہ کسی طرح اپنا تحفظ کرے چاہے بہت سارے غیر آئینی مطالبات بھی ماننے پڑ جائیں۔ سیاستدان بھی ہنوز اقتدار پسندی کے اسیر ہیں۔ ایک سیاستدان چاہتا ہے کہ ہر قیمت پر اسے اقتدار ملے، چاہے جمہوری اصول قربان ہوتے ہوں ہو جائیں۔ ایک سیاسی پارٹی عشروں کے تجربے کار سیاسی کارکنوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک نوآموز نوجوان کو بطور پارٹی لیڈر سامنے لائی ہے، جس کا استحقاق محض ایک بڑے سیاسی خاندان میں جنم لینا ہے۔ مسلم لیگ (ن ) ایک طرف مریم نواز کو جبکہ دوسری طرف حمزہ شہباز کو مستقبل کی سیاسی قیادت کے لئے تیار کر رہی ہے۔ ان مرکزی دھارے کی تمام پارٹیوں میں جمہوری ثقافت کا شدید فقدان ہے۔ یوں استحکام اور ترقی پسند سیاست کے امکانات محدود ہیں۔
ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا ہو گا۔ سیاسی استحکام اور سیاسی قوتوں میں توازن اور اعتدال ہماری کامیابی کے لئے ازحد ضروری ہے تاکہ ہماری معیشت پھلے پھولے، سماج کے رنگوں میں نکھار آئے، معاشرت غیر متمدن اقدار کی گرفت سے نکلے اور ہم تہذیب و تمدن کی طرف کامیابی سے بڑھیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قومی ریاست کا مطلب شہریوں کی خوشحالی اور ترقی کے امکانات میں ایک مددگار کا کردار ادا کرنا ہے تو سیاست کو جلد سے جلد سنجیدہ ہونا ہوگا، شہریوں کو بطور سول سوسائٹی متحرک اور ہوشیار کردار ادا کرنا ہو گا اور اپنے حق انتخاب کی حفاظت کرنی ہو گی۔ عوامی نمائندوںکو عوامی نمائندگی کی پاسداری کرنی ہو گی جن کے بغیر وہ اقتدار کی راہداریوں میں آئینی طریقے سے نہیں جا سکتے۔ جب تک سیاسی پارٹیاں جمہوری اقدار سے اپنی پارٹی کو نہیں سینچیں گی اس وقت تک مثالی جمہوریت کی طرف سفر ناممکن ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ قومیں نہ راہداریوں سے کامیاب ہوتی ہیں اور نہ موٹروے یا میٹرو پروجیکٹس سے جب تک کہ ترقی و خوشحالی کے امکانات اس کی سیاست، ثقافت اور معیشت سے نہ پھوٹیں۔ ہمارا حقیقی اثاثہ ہمارے شہری ہیں، کامیابی کی منزل سوائے شہریت کے راستے کے کسی اور راستے سے ممکن نہیں۔ ہمیں ترقی یافتہ دنیا سے سیکھنا ہوگا، ہمیں یقینا آگے بڑھنا ہو گا۔