پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک بار پھر تنزلی کا شکار ہیں۔ دونوں طرف کا روایتی اور سوشل میڈیا جنگ کے رومانس کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ کوئی اس سوال پر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کر رہا کہ اگر جنگ ہوئی بھی تو کتنا جانی و مالی نقصان ہو گا اور بعد از جنگ اس کے کیا امکانات ہیں کہ دونوں ملکوں کے بچے کھچے عوام ایک خوشحال زندگی کی جستجو میں کامیاب ہو جائیں گے اور سب دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔ گیلپ انٹرنیشنل کے سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں89 فیصد اور بھارت میں 75فیصد لوگ جنگ کے رومانس کو بدقسمتی سے حب الوطنی سمجھتے ہیں۔ ایک طرف جنگی جنون کی یہ انتہا ہے تو دوسری طرف کراچی یونیورسٹی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کی تحقیق کے مطابق کراچی کے نوجوانوں میں سے 48.7 فیصد اس ملک میں نہیں رہنا چاہتے، وہ کسی دوسرے ملک کی جانب ہجرت کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت اور خاص طور پر سول سوسائٹی کو اول تو یہ سوچنا ہو گا کہ آخر باہمی نفرت اور جنگی جنون کا مقصد کیا ہے؟ اگر یہ نفرت برائے نفرت حب الوطنی کا ناگزیر تقاضا ہے تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے کہ شاید کبھی ارتقائے زمانہ انہیں امن و اخوت اور ترقی و خوشحالی کی جستجو کی طرف مائل کر دے۔ اگر دونوں ملکوں کے سنجیدہ طبقات امن و اخوت اور ترقی و خوشحالی کے امکانات کی جستجو میں مخلص ہیں تو ہمیں ان امکانات پر ضرور غور کرنا ہو گا جو ان دونوں ملکوں کو قریب لا سکیں۔ اس کے لئے اول شرط جیسا کہ عرض کیا گیا، اخلاص سنجیدگی اور دانائی سے محبت ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس کے پروفیسر پیٹرک جے میکڈونلڈ بین الملکی تنازعات کے مطالعہ میں ایک بڑا نام ہے۔ انہوں نے دنیا کے تمام ممالک کی خارجہ پالیسی کا ان کی گزشتہ چالیس برس کی تاریخ کے حوالے سے تجزیہ کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ آزاد تجارت اور امن میں مثبت تعلق پایا جاتا ہے۔ وہ دو ممالک جو تنازعات میں گھرے ہوئے ہوں اگر باہمی تجارت کا آغاز کرتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کے تعلقات دوستانہ ہوتے جاتے ہیں۔ وہ اس کے تین اسباب بتاتے ہیں:
ایک :مصنوعات کا تبادلہ ثقافتی رابطوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک عرصہ تک امریکی چینیوں کو پراسرار اجنبی اور بداندیش سمجھتے تھے، لیکن جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا آغاز ہوا، لوگ ملنے جلنے لگے تو ان کے درمیان اجنبیت آہستہ آہستہ ختم ہو گئی۔ اب دونوں ثقافتیں ایک دوسرے کو سمجھتی ہیں۔ ایک طرف امریکی اگر چینی ثقافت کو سمجھنے لگے ہیں تو دوسری طرف چینیوں کی نئی نسل جمہوریت اور مغربی اقدار کی زیادہ قدردان پائی گئی ہے۔ ان دونوں ثقافتوں کو باہم قریب لانے میں آزاد تجارت کا مرکزی کردار ہے۔
دوم : بین الملکی تجارت ترغیب و تحریک پیدا کرتی ہے کہ جنگ کو ہر صورت میں روکا جائے کیونکہ اس سے تجارت کا نقصان ہے۔ مثال کے طور پر چین امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اگر ان دونوںکے درمیان جنگ چھڑنے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو دونوں طرف کے تاجر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرکے اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ہم جانتے ہیںکہ حکومتوںکی کارکردگی میں اس ریونیو کا بڑا کردار ہے جو حکومتیں ٹیکسوںکی صورت میں اپنے شہریوں سے وصول کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ معیشت میں یہ ٹیکس بزنس سیکٹر سے وصول کیا جاتا ہے۔ حکومتیں بھی نہیں چاہتیں کہ ان کے ملک میں کسی بھی غیر یقینی صورت حال کے سبب معاشی سرگرمیاں کم ہوںکیونکہ اس صورت میں حکومت کو کم ریونیو اکٹھا ہوگا اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
سوم : دو ملکوں کے درمیان تجارت ان کی حکومتوں میں باہمی تعاون اور اعتماد کی ضرورت پیدا کرتی ہے جس سے امن و دوستی کی طرف پیش قدمی آسان ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان اپنے کسی تجارتی پارٹنر، فرض کیا بھارت کی مصنوعات کی امپورٹ پر ٹیرف لگاتا ہے تو وہ مصنوعات پاکستان میں آنا کم ہو جائیںگی جس سے بھارتی ایکسپورٹرکا نقصان ہوگا۔ اس صورت میں بھارتی حکومت بھی پاکستانی مصنوعات پر ٹیرف لگانے میں سنجیدگی سے غور کرنے لگے گی، جس سے پاکستانی ایکسپورٹر کو نقصان ہو گا۔ یوں دونوں ممالک اپنے اپنے ایکسپورٹرز کی تجارت کے تحفظ کے لئے حتی الامکان کوشش کریں گے کہ معاشی میدان میں باہمی تعاون اور اعتماد کی فضا قائم رہے۔
تجارت امن و دوستی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اسی تناظر میں Frederic Bastiat کا مشہور قول ہے کہ اگر مصنوعات سرحدوں سے نہیں گزریں گی تو پھر سپاہی گزریں گے۔ پاکستان اور انڈیا دونوں کے مفاد میں ہے کہ وہ باہمی تجارت کو فروغ دیں اور اپنی سرحدیں اس کے لئے کھول دیں۔ دیکھیے جغرافیائی طور پر ہم ایک خوش قسمت ملک ہیں بشرطیہ کہ ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ ہمارے پڑوس میں دنیا کی ایک تہائی آبادی رہتی ہے، صارفین کی تعداد کے اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی ایک تہائی مارکیٹ سے ہم براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان کی پوری کی پوری مارکیٹ ہنوز نئی ہے اور ہمارا تاجر وہاں اپنی مصنوعات کسی دوسرے ملک کی بہ نسبت آسانی سے بیچ سکتا ہے۔ ایران کی مارکیٹ عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد سر اٹھا رہی ہے۔ ایران اور افغانستان سے ہم سنٹرل ایشیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔ بھارت اور چین دونوں کی خواہش ہے کہ وہ پاکستانی جغرافیہ سے معاشی فائدہ اٹھائیں۔ ایک طرف اگر افغانستان، ایران اور سنٹرل ایشیا سے بذریعہ زمینی راستہ تجارت کرنا دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہے تو دوسری طرف گوادرآپ کو گلف کے دروازے پر بٹھا دیتی ہے۔ راقم الحروف یہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستانی سرحدیں پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کے لئے کھول دی جاتی ہیں تو اس کا پاکستانی معیشت کو پاک چین معاشی راہداری سے بھی کئی گنا زیادہ فائدہ ہو گا۔
مگر اس کے لئے اول ہمیں خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیحات سمجھنا ہوںگی۔ ہم پر عسکریت کا بھوت اتنا سوار ہے، ہم اس طرز کے تجزیے پر مجبور ہیں کہ اگر فلاں کی فلاں سے جنگ ہوگئی تو ہمیں کس کا ساتھ دینا ہو گا اور اگر ہماری کسی سے لڑائی ہوئی تو ہمارا کون ساتھ دے گا۔ مثال کے طور پر آج کل روسی فوج کا ایک دستہ پاکستانی فوج کے ساتھ مشترکہ مشقوں کے لئے آیا ہوا ہے، اس سے ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ شاید اب روس انڈیا کے خلاف ہمارے کیمپ میں آ کر آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا ہے اور اب وہی کرے گا جو ہمارے مفاد میں ہوگا، مگر دوسری طرف صورت حال یہ بھی ہے کہ بھارت اور روس کی مشترکہ مشقیں 'اندرا ـ 2016‘ کے نام سے روسی شہر Vladivostokمیں ہو رہی ہیں۔ ہم خارجہ پالیسی کے بنیادی رجحانات سے بے خبر ہیں۔ دنیا بھر کی خارجہ پالیسی پر معاشی مفادات کو ترجیح حاصل ہے اور پھر بین الاقوامی سیاست میں آپ کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اس کا نمبر آتا ہے۔ دونوں عوامل کی بنیاد پر پاکستان دنیا میں پرکشش ملک نہیں۔ پوری دنیا کے ممالک بشمول چین و ایران و افغانستان بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں کیونکہ بھارت کی سوا ارب افراد کی ابھرتی ہوئی معیشت میں ان کے کاروباری مفادات ہیں۔ دوسرا بھارت وقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاست میں اپنا مقام و
مرتبہ مستحکم کرتا جا رہا ہے۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت اس وقت جی20 کا حصہ ہے اور انہی مفادات کے تحت دنیا کی اقوام چین سے دوستی کی خواہش مند ہیں۔کوئی بھی ملک بھارت سے پاکستان دشمنی میں دوستی نہیں کرتا اور نہ ہی پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے ممالک بھارت سے دشمنی کرنا چاہتے ہیں، سب اپنے اپنے قومی مفادات کے اسیر ہیں۔ چین اور امریکہ کے حوالے سے بھی ہم بین الاقوامی سیاست کی بنیادی ترجیحات سے ناواقف ہیں۔ ان دونوں کی معیشت اور معاشرہ کے لئے خودکشی ہو گی اگر دونوں باہم جنگی تنازعات میں پڑتے ہیں۔ جیسے جیسے دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات وسیع ہوئے ہیں ویسے ویسے ان کے سفارتی تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے۔
موجودہ سیاسی اقتدار خواہش مند ہے کہ بھارت سے تجارتی تعلقات بحال ہوں اور دوستی و شراکت داری کے نئے امکانات سامنے آئیں جن سے فائدہ اٹھا کر دونوں ممالک اپنے شہریوں کی خوشحالی کو ممکن بنائیں، مگر ایک طرف اگر پاکستانی ہیٔت مقتدرہ نہیں چاہتی کہ خارجہ پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی لائی جائے تو دوسری طرف بھارت میں پروان چڑھتے ہندو قوم پرستانہ متشدد جذبات اس سلسلے میں مزید رکاوٹ بنتے جا رہے ہیں۔ موجودہ حالات کی سنگینی تجارت و تبادلہ کے امکانات کو مزید کمزور کر رہی ہے مگر تبدیلی ناگزیر ہے۔ آخر کب تک انسانوں کو سرحدوں میں قید کیا جاتا رہے گا ؟ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو عسکری بنیادوں پر نہیں بلکہ معاشی، سیاسی اور سماجی تعاون کی بنیاد پر استوار کرنا ہو گا۔ ایک قومی ریاست کا اس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں کہ اس کی داخلہ و خارجہ منصوبہ بندیاں شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہچائیں۔ ہمیں اپنے شہریوں کو یہ حق دینا ہو گا کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے ہر ملک سے اپنے معاشی و سماجی تعلقات قائم رکھنے میں آزاد ہوں۔ یاد رکھیے اچھی خارجہ پالیسی وہی ہے جس میں دوست بے شمار ہوں اور پڑوس کی طرف سے مکمل اطمینان ہو۔ کیا ہم اس معیار پر پورا اترتے ہیں ؟ ذرا سوچیے!