میکس روزر انسانی ترقیاتی اشاروں کی تحقیق میں ایک بڑا نام ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہ محقق سیاسیات‘ معاشیات اور عمرانیات سمیت سماجی سائنس کے تمام اہم اشاروں کو شماریات کی مدد سے اور انسانی سماجی ارتقا کے ایک وسیع تر تناظر میں ایک منظوم کل میں دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ روزر کی تحقیق کے مطابق سیاسی آزادی اور جمہوریت دور جدید کا کارنامہ ہے۔ 1809ء میں صرف ایک ملک ایسا تھا جسے ہم جمہوریت کی رائج تعریف کے حوالے سے جمہوری کہہ سکتے ہیں۔1843 ء میں تین، 1943ء میں نو، 1980ء میں سینتیس اور اب ان کی تعداد 89 سے زائد ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کی سیاست مکمل طور پر جمہوری ہے جبکہ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جن کا آئین اور ادارے تو جمہوری ہیں مگر وہاں آمریت کے سائے شہریوں کے حق انتخاب پر مسلسل حملہ آور رہتے ہیں۔ ایسے ممالک کی تعداد 47 ہے۔ باقی رہی سیاسی آمریت‘ تو ایسے ممالک کی تعداد محض 22 ہے اور ان کی تعداد میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ کمی آ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام ممالک میں‘ جہاں بدترین درجے کی سیاسی آمریت پائی جاتی تھی یا ہنوز پائی جاتی ہے، ہر آمر ہمیں یہی جواز پیش کرتا نظر آیا ہے کہ جمہوریت یہاں کے ماحول اور حالات میں سازگار نہیں‘ جبکہ سچ یہ ہے کہ دنیا میں صنعتی انقلاب سے پہلے یہ کہیں بھی سازگار نہیں تھی اور اب صنعتی انقلاب کے بعد دور جدید میں اس سے بہتر کوئی دوسرا نظام سازگار نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے اگر ارتقائے زمانہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ صرف جمہوریت نہیں بلکہ قومی ریاست یعنی نیشن سٹیٹ کا تصور بھی دور جدید کی دین ہے۔ لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر جان برولی کہتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کی آخری دہائی سے پہلے تک دنیا میں کہیں بھی کوئی نیشن سٹیٹ نہیں پائی جاتی تھی‘ اس سے پہلے شاہی سلطنتیں پائی جاتی تھی جن کی سرحدیں وہاں تک ہوتیں‘ جہاں تک شاہی خاندان کا قبضہ تھا۔ جب جنگوں میں سرحدیں بدل جاتی تھیں تو سلطنتیں بھی
بدل جاتی تھی۔ یہی ہندوستان‘ ایران اور افغانستان کی تاریخ میں ہوتا رہا ہے۔ ہندوستانی تاریخ میں بھی ایسا موقع کم ہی آیا جب سارا ہندوستان ایک ہی سلطنت کے ماتحت ہو۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضہ سے پہلے یہاں راجاؤں اور نوابوں کی اپنی اپنی ریاست ہوتی تھی۔ ایک راجہ دوسرے راجہ کو جنگ میں شکست دے کر ہی اپنی ریاست میں توسیع کا (اپنے عہد کے اعتبار سے) قانونی و اخلاقی جواز حاصل کر لیتا تھا۔ سلطنتیں اپنے سلاطین سے پہچانی جاتی تھیں جبکہ نیشن سٹیٹ تین چیزوں سے پہچانی جاتی ہے: شہریت کا (سلاطین کا نہیں) سیاسی نظام پر اقتدار اعلیٰ ، حق خود ارادیت، اور قومی خود مختاری۔ جمہوریت اور نیشن سٹیٹ بھی باہم لازم و ملزوم ہیں۔ جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس کا طریقہ کار ادارہ جاتی ہے۔ جس میں شہریوں کو اپنی سیاسی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ مقتدر طبقہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھا سکتا اس لئے پابند ہوتا ہے کہ آئین کے تحت ہی اپنی ذمہ داروں کو سرانجام دے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں شہریوں کی آزادیوں اور حقوق کا ہر صورت میں تحفظ کیا جاتا ہے۔ شہریت میں مساوات اور شہریت کے حقوق کا ہر صورت میں تحفظ جمہوریت کو باقی تمام سیاسی نظاموں سے ممتاز بناتے ہیں‘ اس لئے کسی بھی نیشن سٹیٹ کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کے لئے جمہوریت سازگار نہیں‘ فکری و عملی طور پر ناقص ترین بات ہے۔
ہمارے پڑوس میں بھارت دنیا کی (کل آبادی کے اعتبار سے) سب سے بڑی جمہوریت ہے‘ جس کی تاریخ و ثقافت ہم سے تقریباً مماثل ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک چیز بھارتی وفاق اور سماج کو تو مضبوط و مستحکم بنا رہی ہے‘ مگر ہمارے لئے مضر ہے؟ دیکھئے ایک بات جو ہمارے بعض اذہان کو سمجھ نہیں آتی‘ یہ ہے کہ پاکستان ہو یا بھارت دونوں متنوع شناختوں کے حامل ملک ہیں، صرف جمہوریت ہی ایک ایسا انتظام ہے جس میں تمام شناختوں کو نمائندگی ملتی ہے۔ یوں وہ اپنے حقوق کا تحفظ کر سکتے ہیں اور پارلیمان میں ان کی نمائندگی ریاست کی طرف سے ہر اس اقدام کی پُرامن مزاحمت کرتی ہے جس سے ان کے حقوق پر ضرب پڑے۔ آمریت میں ایسا ممکن نہیں۔ آمریت کسی ایک طبقہ، شناخت یا ادارہ کی نمائندگی کرتی ہے جس سے دوسری شناختوں میں احساس محرومی بڑھتا ہے اور قومی اتحاد میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ پاکستان سے بنگلہ دیش اس لئے علیحدہ ہوا کہ بنگالی شناخت کے لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا تھا کہ وفاق ہماری نمائندگی نہیں کرتا۔ اس مسئلہ کا حل صرف جمہوریت تھا مگر ہم نے فوجی آمریت کو شاید بنگالی ماحول کے لئے زیادہ سازگار سمجھا۔ پھر جو نتیجہ نکلا اسے اگر پاکستانی ریاست بھول چکی ہے تو یہ ہماری تاریخ کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کا صرف سیاسی حل ہی ممکن ہے‘ جس کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اٹھائیس ستمبر کو کھل کر انکشاف کر چکے ہیں۔ بار بار کی ناکام آمریتوں اور نتیجے میں کمزور پڑتا ہمارا وفاق ہم پر صرف یہی حقیقت منکشف کرتا ہے کہ ایک متنوع شناختوں کے حامل سماج میں صرف جمہوریت ہی موزوں ہے۔
آج ہمیں جنرل مشرف یا انہی کی طرح کے کسی دوسرے فرد سے جمہوریت کے جواز کا فتویٰ لینے کی ضرورت نہیں۔ جمہوریت ساری دنیا میں اپنی دلیل منوا چکی ہے۔ پاکستانی دانشورانہ مکالمے کو بھی اس سلسلے میں سنجیدہ‘ ذہین اور مخلص ہونا ہو گا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جب بھی کسی حکمران سیاسی پارٹی کی کارکردگی پر تنقید کی جاتی ہے تو اس کے متبادل میں فوراً آمریت کو پیش کر دیا جاتا ہے۔ جمہوریت محض پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کا نام نہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا۔ یہ شہریوں کے حق انتخاب کا نام ہے اور یہ کہ تمام ادارے شہریت کے حضور جوابدہ ہیں۔ اگر ایک سیاسی پارٹی اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہی تو اس کا حل اسے جوابدہی کے کٹہرے میں لانا‘ اور اگلے الیکشن میں کسی دوسری بہتر سیاسی پارٹی کا انتخاب ہے۔ مباحثہ جمہوریت و آمریت کے درمیان نہیں بلکہ اچھی کارکردگی کی جمہوریت اور بری کارکردگی کے حامل جمہوری بندوبست کے درمیان ہونا چاہئے۔ ہمیں ان امکانات کو تسخیر کرنا ہو گا جس سے ہم اپنے شہریوں کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہنچا سکیں۔ ہمارا دانشورانہ مکالمہ بھی ارتقائے زمانہ سے ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے جمہوریت کے باب میں دانشورانہ اتفاق رائے کی ثقافت کو فروغ دے۔ یقین کریں آمریت کو بطور متبادل بحث سے نکال دیجئے، آپ دیکھیں گے کہ ہمارا سیاسی مکالمہ زیادہ ذہین‘ سنجیدہ اور بامقصد ہو جائے گا۔ موجودہ صورتحال میں ایک جمہوریت پسند شخص مجبور ہے کہ مقتدر جمہوری پارٹی کے تقریباً ہر اقدام کو سپورٹ کرے کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ دوسری صورت میں آمریت کا جواز مستحکم ہو گا۔ دنیا کی مضبوط جمہوریتوں میں ایسا نہیں ہوتا کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی بہتر کارکردگی نہیں دکھا رہی تو وہاں کا دانشور آمریت کے ڈھول پیٹنا شروع کر دے۔ پاکستان ایک قومی ریاست ہے۔ یہاں کے شہری آئینی حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے حکمران منتخب کریں اور انہیں جوابدہی کے کٹہرے میں لائیں۔ آمریت ہر صورت میں غیر آئینی ہے‘ چاہے اس کی توثیق عدالت سے ہو، پارلیمان سے یا کسی بھی دوسرے ادارے سے۔ صرف وہی اقتدار آئینی ہے جس کی توثیق شہری اپنے حق انتخاب‘ یعنی ووٹوں سے کریں۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جنرل مشرف جس ملک کے لئے جمہوریت کو سازگار نہیں سمجھتے وہ اسی میں آل پاکستان مسلم لیگ نامی ایک سیاسی پارٹی کے بانی صدر بھی ہیں‘ جس کا سیاسی منشور الیکشن جیت کر سیاسی اقتدار حاصل کرنا ہے۔ دو ہزار تیرہ میں ان کی جماعت نے انتخابات میں حصہ لیا بھی اور نتیجے میں ایک قومی اور ایک صوبائی نشست چترال سے جیتی۔ جنرل صاحب خود انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ چار سال کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد چوبیس مارچ دو ہزار تیرہ کو اس امید سے کراچی ائیرپورٹ پر اترے کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کا منتظر ہو گا مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ سیاسی میدان میں کامیابی کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہے۔ پاکستانی عدالتوں میں ان کے خلاف مختلف نوعیت کے کیسز پر کارروائی جاری تھی کہ بقول ان کے‘ ہیئت مقتدرہ کی مدد سے اس ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ سیاسی طور پر ایک شکست خوردہ فرد سے آپ کیا توقع کریں گے سوائے اس کے کہ جس نظام میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا اسی نظام کو ہی ناموزوں قرار دے دے۔ یوں ان کے لئے وہ سارے انگور کھٹے ہیں جن تک ان کی رسائی ممکن نہیں رہی۔ جنرل صاحب کو اب یہی مشورہ ہے کہ ان انگوروں تک رسائی کے لئے زیادہ اچھل کود نہ کریں، ان کی کمر میں بھی بقول ان کے زیادہ تکلیف رہتی ہے اور انہیں اپنے عزیزوں کی شادیوں پر رقص بھی کرنا ہوتا ہے۔
(ایک گزارش: گزشتہ کالم میں خیبر ایجنسی کی جگہ غلطی سے لوئر دیر لکھا گیا‘ جہاں ایک اندازے کے مطابق گزشتہ الیکشن میں خواتین کے ووٹوں کا تناسب محض دو فیصد رہا اور تمام سیاسی پارٹیوں نے اس خواتین دشمن ثقافتی جبر پر چپ سادھے رکھی)