2025: برآمدات کم صنعتکار دبائو کا شکار رہے
چین سے دھاگے اور کپڑے کی درآمد میں اضافے کے باعث مقامی پاور لوم انڈسٹری شدید متاثر ، 70سے 80پاور لوم فیکٹریاں بند ہو گئیں،حکومتی وعدوں پر عمل نہ ہوا
فیصل آباد (ذوالقرنین طاہر سے )سال 2025 فیصل آباد کی صنعت کے لیے مجموعی طور پر ایک مشکل اور نقصان دہ سال ثابت ہوا۔ اگرچہ سال کے آغاز میں صنعتی سرگرمیوں میں بہتری کے آثار نظر آئے ، تاہم چند ہی ماہ بعد ایکسپورٹ میں کمی کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس کے باعث صنعتکار شدید دباؤ کا شکار رہے ۔ گزشتہ برس کی طرح سال 2025 بھی فیصل آباد کی صنعت کے لیے حوصلہ افزا ثابت نہ ہو سکا۔ چین سے دھاگے اور کپڑے کی درآمد میں اضافے کے باعث مقامی پاور لوم انڈسٹری شدید متاثر ہوئی اور شہر میں 70 سے 80 پاور لوم فیکٹریاں بند ہو گئیں۔ صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ سال کے آغاز میں حکومت کی جانب سے متعدد وعدے کیے گئے ، تاہم ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا، جس سے انہیں بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2025 کے دوران ایکسپورٹ میں 11.5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ 40 فیصد سے زائد مقامی کارخانے اور فیکٹریاں بند رہیں۔
شرح سود میں غیر معمولی اضافے نے ایکسپورٹرز کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔ صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے بجائے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل صنعتکاروں پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث خام مال مہنگا ہو گیا، جبکہ درآمدی پابندیوں کے سبب مشینری کی درآمد ممکن نہ رہی۔ نتیجتاً 7 سے 9 فیصد مشینری بند ہونے سے پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ بین الاقوامی سطح پر پیداواری لاگت زیادہ ہونے کے باعث پاکستانی مصنوعات عالمی منڈی میں قیمتوں کا مقابلہ نہ کر سکیں۔صدر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ حکومت نے صنعت کی بہتری کے لیے کوششیں ضرور کیں، مگر حقیقی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لینے کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فیصل آباد کے ایکسپورٹرز کو بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی میں سہولت دی جائے اور پالیسی میکرز صنعتکاروں کے ساتھ مل بیٹھ کر جامع منصوبہ بندی کریں تو صنعتی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔مجموعی طور پر سال 2025 فیصل آباد کے صنعتکاروں کے لیے امید اور خدشات کا امتزاج ثابت ہوا۔ شہر کی صنعت نے مشکلات کے باوجود خود کو سنبھالے رکھا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس برس بھی نئی صنعتوں کے قیام کے بجائے کئی پرانی فیکٹریاں خاموش ہو گئیں۔