باقی کچھ بچا نہیں،اب ملیر ندی پر قبضہ ہوگا:سندھ ہائیکورٹ
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائیکورٹ نے ملیر ندی کی 10 ایکڑ سے زائد کی ملکیت کا تنازعہ کافیصلہ ستاتے ہوئے ملیر ندی کی ری کلیم کی گئی زمین کو حکومت سندھ کی ملکیت قرار دے دیاہے ۔
عدالت عالیہ نے ممبر بورڈ آف ریونیو اور دیگرافسران کے خلاف دائرتوہین عدالت کی درخواست کوبھی مستردکردیا۔کے ڈی اے کی غلطی کی قیمت درخواست گزارشہری کو چکانا پڑی ہے ۔عدالت عالیہ نے اپنے مختصرفیصلے میں قراردیاہے کہ ملیر ندی کی ری کلیم شدہ زمین کے ڈی اے کی ملکیت نہیں ہے ۔عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو و دیگر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست مسترد کردی ،درخواست گزارکاموقف تھاکہ کے ڈی اے نے ہمیں کورنگی میں دس ایکڑ زمین متبادل کے طور دی تھی۔جسٹس صلاح الدین پہنورنے سرکاری افسران سے استفسارکیاکہ ملیر ندی کی ٹوٹل لمبائی اور چوڑائی کتنی ہے ، عدالت میں موجود افسران ملیر ندی کی لمبائی اور چوڑائی بتانے میں ناکام رہے ۔جسٹس صلاح الدین پہنور نے ہدایت کی کہ عدالت کو ریکارڈ دکھایا جائے کہ ملیر ندی کہاں کہاں سے گزر رہی ہے ۔اس بارے میں نہ سندھ حکومت کو پتہ ہے نہ ہی کسی سرکاری افسر کو ۔جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیے کہ بادشاہوں کی طرح مت کہیں یہ زمین سندھ حکومت کی ہے ۔عدالت میں موجود افسران نے استدعاکی کہ انہیں ایک گھنٹے کی مہلت دے دیں وہ ملیرندی کی تفصیلات سے عدالت کوآگاہ کردیں گے ۔اسسٹنٹ جنرل سندھ اسد افتخارنے مؤقف اختیارکیاکہ کے ڈی اے سندھ حکومت کی مرضی کے بغیر زمین نہیں دے سکتی ہے جس پر جسٹس صلاح الدین پہنور نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ باقی کچھ بچا نہیں ہے ، اب ملیرندی پر قبضہ ہوگا ،اسکولز پر یونیورسٹیز پر ہی قبضہ ہوگا۔ملیر ندی کی زمین اب آپس میں بانٹنا چاہتے ہیں ۔جسٹس صلاح الدین پہنورنے استفسار کیاکہ کیا ملیر ندی بہہ رہی ہے پانی ہے ملیر ندی میں ؟درخواست گزارکادرخواست میں موقف تھاکہ کے ڈی اے نے درخواست گزار شاہ نواز کو کورنگی میں 10 ایکڑسے زائد زمین متبادل کے طور پر دی تھی کیونکہ سندھ حکومت نے 1976 کے سیلاب متاثرین کو ہماری زمین دی تھی۔