احتجاج کی کال ملک کو ڈی ریل کرنیکی کوشش،عمران سیاسی کشیدگی کے ذمہ دار:نواز شریف
لندن (دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)صدر مسلم لیگ ن نواز شریف نے کہا 24 نومبر کو احتجاج کی کال ملک کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ہے ،احتجاج کی کال دینے والے انشائاللہ کامیاب نہیں ہوں گے ۔
سیاسی کشیدگی کے ذمہ دار بانی پی ٹی آئی ہیں،عمران خان بات مان لیتے توہمیں تکالیف نہ اٹھانی پڑتیں،کسی نے نہیں روکا، طے تھا اکثریت نہیں ملی تو میں وزیراعظم نہیں بنوں گا،ان خیالات کا اظہار نواز شریف نے اپنی بیٹی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ لندن سے وطن واپسی کیلئے ایون فیلڈ سے ایئرپورٹ کیلئے روانہ ہونے پر میڈیا سے گفتگو اور قبل ازیں ایک انٹرویو میں کیا۔سابق وزیر اعظم نے کہا جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والوں کو جھوٹا ہی کہیں گے ، 24 نومبر کو احتجاج کی کال ملک کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ہے ، سیاسی کشیدگی کے ذمے دار بانی پی ٹی آئی ہیں ، انہوں نے جمہوریت کو سمجھا اور نہ اسکی بہتری کیلئے کچھ کیا، انہوں نے کہا بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی، میں ایسا کچھ نہیں کہنا چاہتا جو مشکلات یا عدم استحکام کا باعث بنے ، یہ آخری چیز ہے جو میں ملک کے لیے کرنا چاہتا ہوں،پاک بھارت تعلقات کا موضوع منفرد ہے ، کوئی بھی ایماندارانہ جواب کسی بھی ایک فریق کے لیے تکلیف دہ ہوسکتا ہے ، مجھے بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور جارحانہ بیانات سے گریز کرنا ہوگا، خطے کا سینئر ترین سیاستدان ہونے کے ناطے میں کوئی غلط فہمی نہیں چاہتا۔ہم دونوں ممالک پڑوسی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ، ہمارے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔جب مسائل کی بات آتی ہے تو ہمیں دوستانہ ماحول میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے ، اگر کسی ملک سے آپ کے تعلقات بہتر ہوں تو اس کے ساتھ مسائل پر بات کرنا آسان ہوتا ہے ، لیکن اگر آپ ایک دوسرے سے دور رہیں تو مسائل پر بات چیت نہیں کرسکتے ۔
اسی لیے میں نے کہا تھا کہ ان کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے ، اگر ایسی صورتحال ہوتی کہ ہمیں کھیلنے کے لیے بھارت جانا ہوتا تو میں چاہتا کہ پاکستان وہاں جانے والی پہلی ٹیم ہو، اس لیے بھارتی ٹیم کو پاکستان جانا چاہیے ، اس سے تعلقات بہتر ہوں گے ۔بھارت کی طرف سے دہشتگردی کے الزامات پر انہوں نے کہا ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔جمہوری اقدار کے بتدریج خاتمے ، سیاسی گرفتاریوں سے متعلق سوال پرانہوں نے کہا چاہے آپ اس سوال میں عمران خان کو لائیں یا نہ لائیں، وہی اس کی اصل وجہ ہیں، انہیں جمہوریت کو فروغ دینے اور استحکام بخشنے کا سب سے بڑا موقع ملا، جب میں وزیراعظم اور وہ اپوزیشن لیڈر تھے لیکن انہوں نے جمہوریت کو سمجھا نہ اس کے استحکام کے لیے کچھ کیا،مجھے نہیں یاد کہ میں نے انہیں ایک یا دو مرتبہ سے زیادہ اسمبلی میں دیکھا ہو، انہوں نے سارا وقت اسمبلی سے باہر دھرنوں میں گزارا، ان کے ارکان نے استعفے دئیے ، انہوں نے 35 پنکچر کیس کے نام سے ہمارے خلاف مہم شروع کی جسے اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک نے اٹھاکر باہر پھینک دیا، انہوں نے مولانا طاہر القادری سمیت دیگر لوگوں کے ساتھ اتحاد بنایا، کیا یہ جمہوریت تھی؟موجودہ حکومت میں جمہوری آزادیاں سلب کیے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں اس سے بھی بدتر صورتحال ہوئی،انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا وقت جمہوریت کے استحکام پرصرف کیا، الیکشن جیتنے کے بعد میں عمران خان کے گھر گیا اور انہیں مل بیٹھ کر پاکستانی عوام کی خدمت کی دعوت دی، انہوں نے مجھے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا لیکن کچھ دن بعد انہوں نے اپنے دھرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ذمے دار وہ ہیں، آج ہم مل کر کام کررہے ہوتے اگر اس وقت انہوں نے میری بات سنی ہوتی جب میں ان کے گھر گیا تھا،2013 کے انتخابات کے بعد ہماری پارٹی کو عمران خان کی حمایت کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی لیکن ملک اور جمہوریت کی خاطر عمران خان کی جانب امن کا ہاتھ بڑھایا تھا۔
اگر انہوں نے منصفانہ اور شفاف طریقے سے انتخابات جیتے ہوتے اور ان نظریات پر کام کیا ہوتا، تو ہم مل کر خدمت کر رہے ہوتے ، لیکن انہوں نے میری بات نہیں سنی اور ہمیں تکلیف اٹھانی پڑی۔ انہوں نے کہا کسی نے نہیں روکا،فروری کے الیکشن سے پہلے ہی طے ہوچکا تھا کہ اگر مجھے اکثریت نہیں ملے گی تو میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں بنوں گا،اس میں کوئی راز نہیں ہے ،اس سوال پر کہ کیا یہ سچ ہے کہ انہیں عہدہ نہ لینے کا کہا گیا؟ نوازشریف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کیا آپ واقعی ایسا سمجھتی ہیں؟ یہ سچ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا انتخابی نتائج میری توقعات سے کم تر تھے ، میں نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل کیا ہے ، اب میری توجہ اپنی پارٹی کو منظم اور چیزوں کو ٹھیک کرنے پر مرکوز ہے ، میں پارٹی کو مضبوط بنانے کے لئے مختلف مقامات کا دورہ کروں گا، مجھے امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے اور لوگ دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا دیا ہے ۔یاد رہے کہ نواز شریف اور مریم نواز چند روز سے لندن میں مقیم تھے ، اس دوران دونوں نے کچھ روز سوئٹزرلینڈ میں بھی گزارے تھے ۔سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز رات گئے لندن سے وطن واپس پہنچ گئے ۔