بانیٔ تحریک انصاف عمران خان کے جیل میں جانے کے بعد پارٹی کو قیادت کے بحران کا سامنا ہے۔ مشکل وقت میں بالعموم جو متبادل قیادت سامنے آتی ہے پی ٹی آئی اس سے محروم رہی۔ اس دوران دستیاب قیادت نے پارٹی کو سنبھالا دینے کی کوشش ضرور کی مگر کارکنان اس قیادت پر اعتماد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ بشریٰ بی بی کچھ عرصہ پہلے تک سیاسی معاملات سے دور تھیں اب انہوں نے متبادل قیادت کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند روز قبل وہ جیل سے رہا ہوئیں تو انہوں نے بنی گالا یا لاہور میں قیام کے بجائے پشاور کو اپنا مسکن بنایا ۔ بشریٰ بی بی نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر پشاور میں متعدد رہنماؤں سے میٹنگز کیں۔ پی ٹی آئی کی 24 نومبر کو احتجاج کی کال پیچھے اگرچہ خان صاحب کی سوچ ہے مگر اسے عملی شکل دینے کی ذمہ داری بھی بشریٰ بی بی نبھاتی نظر آتی ہیں۔ خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی قیادت عوام کو باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی‘ ان کا خیال ہے کہ اگر بڑی تعداد میں لوگ باہر نکل آئیں تو ان پر قائم مقدمات ختم ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ ٹاسک علی امین گنڈاپور کو سونپا گیا تھا مگر بوجوہ وہ بڑی تعداد میں لوگوں کو باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ خان صاحب کی سوچ کو عملی صورت دینے کے لیے اب بشریٰ بی بی احتجاج کے تمام معاملات کی خود نگرانی کر رہی ہیں۔ پشاور میں ہونے والے اجلاس میں انہوں نے پارٹی رہنماؤں اور عہدیداروں کو احتجاج کے حوالے سے جو اہم ذمہ داریاں سونپیں اور ہر حلقے سے ایم این اے کو 10 ہزار اور ہر ایم پی اے کو پانچ ہزار افراد ساتھ لانے کا کہا گیا۔ جو ایم این اے یا ایم پی اے اپنے ساتھ لوگ نہیں لائیں گے انہیں پارٹی سے باہر کیا جا سکتا ہے اور جو پارٹی رہنما‘ ایم این اے یا ایم پی اے احتجاج سے قبل گرفتار ہوئے وہ بھی پارٹی سے باہر سمجھے جائیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا منصوبے کے مطابق لوگ باہر نکل آئیں گے؟
یہ حقیقت ہے کہ خان صاحب کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے پی ٹی آئی کے کارکنان بشریٰ بی بی کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو بشریٰ بی بی کی سیاسی سرگرمیوں کو کارکنان کی حد تک پسند کیا جائے گا‘ تاہم یہ کافی نہیں ہے کیونکہ خان صاحب کے قریب سمجھے جانے والے لوگوں کے حوالے سے پی ٹی آئی قیادت کا طرزِ عمل ماضی میں کچھ مختلف رہا ہے۔ جب خان صاحب کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے سیاست میں متحرک ہونے کی کوشش کی تو پارٹی قیادت کو ان کی سیاسی سرگرمیاں ہضم نہ ہوئیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ خان صاحب اور ریحام خان کے رشتے کو ختم کرانے میں اس وقت کے سرکردہ پارٹی رہنماؤں کا کردار تھا۔ ریحام خان کے پارٹی میں متحرک کردار سے ناخوش لوگوں کی اکثریت اگرچہ اب پارٹی کا حصہ نہیں تاہم وہ سوچ کہیں نہ کہیں اب بھی موجود ہے۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ بشریٰ بی بی کے سیاسی طور پر متحرک ہونے سے پارٹی میں نئی صف بندی دکھائی دے گی۔ احتجاج اور جلسے اعصاب شکن کھیل ہے جس میں کمزور اعصاب کا مالک شخص کامیاب نہیں ہو سکتا‘ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بشریٰ بی بی کو احتجاجی جلسوں کی قیادت کا کوئی تجربہ نہیں‘ وہ پچھلی صفوں پر رہتے ہوئے کوئی کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن سیاسی جلسوں میں کارکنان یہ توقع رکھتے ہیں کہ قیادت ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کو ایک بار پھر اسی قیادت پر تکیہ کرنا ہو گا جسے پہلے کئی بار آزمایا جا چکا ہے۔ ہاں اگر بشریٰ بی بی خود احتجاج کی قیادت کرتی ہیں تو نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔ خان صاحب چونکہ خود احتجاج میں 'مار یا مرو‘ کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں اور ماضی میں بھی پی ٹی آئی متشدد احتجاج کا ریکارڈ رکھتی ہے اس لیے حکومت کے پاس اس احتجاج کو روکنے کا جواز موجود ہو گا۔ حکومت طاقت کے ساتھ احتجاج کو روکے گی‘ جبکہ گرفتاریوں کے ڈر سے لوگوں کی بڑی تعداد کو باہر نکالنے کا منصوبہ بھی آسانی سے پورا نہیں ہو سکے گا۔
آئینی ترمیم کی منظوری اور سروسز چیفس کی مدتِ ملازمت پانچ سال ہونے کے بعد خان صاحب سمجھتے ہیں کہ انہیں طویل انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے بھرپور عوامی احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مسلسل احتجاج کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ حکومت سے غلطی سرزد ہو اور وہ اس کا فائدہ اٹھائے۔ خان صاحب شاید یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح ان سے نو مئی کی غلطی سرزد ہوئی‘ جس کا وہ خمیازہ بھگت رہے ہیں‘ اسی طرح کی غلطی حکومت سے کرا کر حساب برابر کر دیا جائے۔ حکومت نے مگر اب تک پی ٹی آئی کے حربے کو ناکام بنایا ہے ورنہ تصور کریں کہ مسلح جتھوں کا احتجاج میں شریک ہونے کا مقصد کیا تھا‘ اسلحہ کے زور پر پولیس کی حراست سے قیدیوں کو چھڑانے کا مقصد کیا تھا؟ غور طلب امر یہ ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے احتجاج کے ضمن میں اب تک جس حکمت عملی سے کام لیا آنے والے وقت میں بھی یہ برقرار رہ سکے گا؟ حکومت کو پی ٹی آئی سے بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں تاہم غلطیوں سے بچنا اور اتحادیوں کو جوڑے رکھنا اصل کمال ہو گا۔ پی ٹی آئی کو اگر کوئی فائدہ ہوا تو انہی دو صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ اگر حکومتی اتحاد ختم ہوتا ہے تو حکومت قائم نہیں رہ سکے گی‘ اسی طرح ایک غلطی ہیرو سے زیرو بنا سکتی ہے۔ سیاسی غلطیوں کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ ماضی قریب میں جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی‘ مقتدرہ اور حکومت کے تعلقات مثالی تھے‘ ایک تقرری کے معاملے پر اختلافات پیدا ہو گئے‘ مقتدرہ کا دستِ شفقت ہٹا تو اُس وقت کی اپوزیشن نے فائدہ اٹھایا‘ تحریک عدم اعتماد آئی اور کامیاب بھی ہو گئی حالانکہ اس سے قبل پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا ہر حربہ ناکام ہو چکا تھا۔ مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاستدان بھی احتجاج کو ہی واحد راستہ قرار دے رہے تھے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے غلطیوں سے بچنا ہی اصل کامیابی ہوتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کے سیاسی کردار کو ان کی پارٹی میں بے حد پسند کیا جاتا ہے اور انہیں اپنے مقصد میں کامیابی بھی ملتی ہے۔ جس طرح دیگر جماعتوں کی خواتین نے مشکل وقت میں خود کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کیا‘ مرحومہ کلثوم نواز‘ مریم نواز اور فریال تالپور کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مذکورہ خواتین کے سیاسی کردار کو سیاسی حلقوں میں سراہا جاتا ہے۔ بشریٰ بی بی کی سیاسی سرگرمیوں اور مشکل وقت میں اپنے شوہر اور پارٹی کے لیے خدمات کو اسی نظر سے دیکھا جانا چاہیے‘ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی قیادت بھی بشریٰ بی بی کی سیاسی سرگرمیوں کو دل سے قبول کر لے گی؟ خان صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان بھی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے اختلافات کی خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ مشکل ضرور ہو گی کہ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان میں سے کس کی سرپرستی کو تسلیم کیا جائے؟ کارکنان اور قیادت کے لیے بہر طور یہ ایک اہم چیلنج ہو گا۔