چلیں مان لیا 13ویںصدی میں جب بغداد پر ہلاکو خان نے حملہ کیا تو اُس وقت علمائے کرام کے درمیان مناظرہ نہیں ہو رہا تھا کہ کوا حرام ہے یا مکروہ۔ ہو سکتا ہے ان آٹھ سو برسوں میں لوگوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا ہو۔ ابھی پرنٹنگ پریس ایجاد نہیں ہوا تھا اور نہ ہی وہ سلطنت عباسی تک پہنچا تھا لہٰذا ان باتوں کا کوئی دستاویزی یا تحریری ثبوت نہیں ملتا۔ یوں ہم شک کا فائدہ آخری خلیفہ معتصم باللہ کو دے سکتے ہیں کہ بھلا وہ کب ایسے مناظرے کرا رہا ہوگا‘ جب ہلاکو خان کی فوجیں گھیرا ڈال کر کھڑی تھیں۔ اگرچہ بعض مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ بغداد کی فتح کے بعد تاتاریوں نے آخری عباسی خلیفہ کو ایک بوری میں بند کر کے ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب معتصم باللہ کو مارنے کا فیصلہ ہوا تو کسی نے خبردار کیا کہ اگر اس کا خون زمین پر گرا تو یہ تاتاریوں کے لیے بڑا مسئلہ پیدا کرے گا۔ ان کا کہنا تھا وہ جیسا بھی تھا‘ مسلمانوں کا خلیفہ تھا۔ اس کا لہو گرا تو وہ مزاحمت کا نشان بن جائے گااور یوں ممکن ہے ساری دنیا کے مسلمان اکٹھے ہو کر خلیفہ کے قتل کا بدلہ لینے نکل پڑیں۔بہرکیف اس کا جو دردناک انجام ہوا وہ اس بادشاہ نے خود لکھا تھا‘ جب اس نے جدت اور نئی دنیا کے تقاضوں سے خود کو دور کر لیا۔ وہ اپنے کمفرٹ زون میں قید ہو گیا تھا۔ ہر وہ حکمران جو کمفرٹ زون کا شکار ہوتا ہے‘ وہ ابراہیم لودھی کی طرح پانی پت کے میدان میں ہاتھیوں سے بابر کی توپ کا مقابلہ کرنے آتا ہے تو مارا جاتا ہے یا پھر معتصم باللہ کی طرح دردناک انجام کو پہنچتا ہے۔
اگرچہ کچھ لوگ اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ دریا کنارے ایسا کوئی مباحثہ ہو رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسلم حکمرانوں کے خلاف سازشی بیانیہ ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں لیکن جو اسلامی نظریاتی کونسل نے فتویٰ دیا ہے کہ پاکستان میں وی پی این کا استعمال غیر شرعی ہے‘ اس بارے کیا خیال ہے؟ اب تو ان لوگوں کو بھی اس مناظرے پر یقین کر لینا چاہیے جو معتصم باللہ دور کے اُس واقعے کو نہیں مانتے۔ تیرہویں صدی میں مسلمانوں کا سنگین مسئلہ کوے کا حرام یا مکروہ ہونا تھا‘ تو اب آٹھ سو سال بعد بات وی پی این تک آن پہنچی ہے۔ کوے کے بعد وی پی این کو حرام ہونے کا اعزاز ملا ہے۔
ویسے ہمارے ساتھ کیا مسئلہ ہے‘ ہم ہر دور میں ٹیکنالوجی کے دشمن کیوں رہے ہیں؟ جو بھی نئی ایجاد سامنے آتی ہے اس کے خلاف فتویٰ ہمارے ہاں سے ملتا ہے۔ ہر حکمران کے ہاتھ یہ ایسا ہتھیار لگا ہے کہ اب کوئی بھی اس کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ بھٹو صاحب جیسا بندہ بھی پاور کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر مذہبی ٹچ پر اُتر آیا تھا۔ بھٹو نے اپنے آخری دنوں میں وہ اقدامات کیے جن سے اُن کا خیال تھا کہ مذہبی طبقہ راضی ہو گا اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک ختم ہو جائے گی۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ وہ دراصل ان عناصر کی پچ پر جا کر کھیل رہے تھے۔ وہ ان کے لیڈروں یا پیروکاروں کو مضبوط کر رہے تھے‘کمزور نہیں۔
جب بھٹو ایسے اقدامات کر رہا تھا تو پیروکار تو اپنے لیڈروں کے نعرے مار رہے تھے کہ کیسے بھٹو کو جھکا دیا۔ بھٹو یہ نہ سمجھ سکے کہ مذہبی ٹچ دے کر بھی وہ اقتدار میں نہیں رہ سکیں گے۔ وہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک پکا اور پیپلز پارٹی کا ووٹ کم کر رہے تھے۔ بھٹو کو ووٹ مذہبی ٹچ کی وجہ سے نہیں ملا تھا بلکہ روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے پر ملا تھا۔ ان کا ووٹر کسان‘ مزدور اور غریب آدمی تھا۔ وہی بھٹو سپریم کورٹ میں اپنے مقدمے میں تین دن تک اپنے کارنامے سناتے رہے کہ انہوں نے مسلم اُمہ اور عالم اسلام کی کتنی خدمت کی‘ تو کیا یہ انہیں پھانسی سے بچا سکا؟
بھٹو کی طرح عمران خان نے بھی وزیراعظم بن کر مذہبی بیانیہ خوب برتا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عوام کو اپنی کارکردگی سے نہیں‘ مذہبی ٹچ سے متاثر کریں گے اور ان کا یہ ٹچ خاصا کامیاب بھی رہا۔ آج کل وہ بھی بھٹو کی طرح اڈیالہ جیل میں مقیم ہیں۔ وہ بھی روزانہ اس ملک میں لیکچر دیتے تھے۔ اس ملک میں اکثریت کو یقین دلا یا جاتا ہے کہ ان کا ایمان خطرے میں ہے‘ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ کس سے خطرے میں ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی طور پر ایک دوسرے سے خطرہ رہا ہے۔ہم ایک دوسرے کے خلاف فتوے دیتے آئے ہیں۔ یہود وہنود سے زیادہ سازشیں ہم نے خود ایک دوسرے خلاف کی ہیں۔ ہاں یہود وہنود کا اس میں اتنا حصہ ضرور تھا کہ انہوں نے ہمارے ہاتھوں میں نئی ٹیکنالوجی تھما دی کہ اس کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلائیں۔ ہمیں بجلی‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ‘ یوٹیوب‘ فیس بک‘ ٹویٹر دے دیا یا سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز کو کھل کر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔ وہ لوگ جو کبھی ان سائنسی ایجادات کو شیطان کہتے تھے‘ اب ان سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ٹیکنالوجی کو ہمارے ہاں نفرت کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔
سوال یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو وی پی این تو غیر شرعی لگتا ہے لیکن بہت سے دیگر ایشوز غیرشرعی کیوں نہیں لگتے؟ ان کا کہنا ہے کہ وی پی این کے ذریعے آن لائن چوری کی جاتی ہے۔ ہمارے علماء کرام کو آن لائن چوری کی فکر ہے‘ لیکن جو سیاسی ایلیٹ‘ سول ملٹری حکمران‘ بیورو کریسی اور دیگر طاقتور طبقات کھلے عام چوری کرتے ہیں اور پیسہ بیرونِ ملک ٹرانسفر کرتے ہیں اس کی کیوں فکر نہیں ؟ اس وقت ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں حالانکہ اسلام واحد مذہب ہے جس نے چودہ سو برس پہلے عورت اور مرد پر تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا تھا۔ مطلب اس ملک میں حکمرانوں کے کرتوتوں سے کسی کو مسئلہ نہیں۔ وہ منی لانڈرنگ کریں‘ لندن میں جائیدادیں خرید لیں‘ دبئی میں گھڑیاں بیچیں‘ جنیوا کے بینکوں کو پاکستان سے ڈالروں کی شکل میں لیے گئے کمیشن سے بھر دیں‘ کینیڈا میں پاکستانی افسران لاکھوں ڈالرز کے گھر خرید لیں‘ پنجاب میں ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کے عہدے بیچے جائیں‘ پاکستان سے مال کما کر دنیا بھر میں جائیدادیں بنا لی جائیں‘ کبھی نظریاتی کونسل کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ بلکہ ان تمام حکمرانوں اور ایلیٹ کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ اس ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی ہو‘ ظلم تشدد ہو‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں کسی کو کچھ بھی غیر شرعی نہیں لگا۔ الٹا ہر حکمران کو ہر دور میں ایسے علما مل جاتے ہیں جو ان کے اقتدار کو مذہبی ٹچ دینے کے لیے فتوے بھی دیتے ہیں‘ ان کے گھروں اور محلوں پر محفلیں بھی منعقد کرتے ہیں۔
میرا اعتراض ایک ہی ہے کہ اگر آپ کو لگتا ہے اس ملک میں سوشل میڈیا یا نئی ٹیکنالوجی ملک کی دشمن ہے تو سیدھا فیصلہ کریں اور سب کچھ بند کر دیں۔ آپ ایک انتظامی یا قومی فیصلہ لے لیں۔ اسے مذہبی ٹچ دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر دنیا خلیفہ معتصم باللہ کے دریا کنارے مناظرے کو بھول گئی تھی تو دوبارہ اسے یاد دلانے کی کیا ضرورت تھی کہ آٹھ سو سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں‘ جہاں قلعے کے باہر ہلاکو خان بغداد کی تباہی کا منصوبہ لے کر کھڑا تھا اور اندر خلیفہ کوے کے حرام یا مکروہ کا فیصلہ علما سے کرا رہا تھا۔ ان آٹھ سو برسوں میں کچھ نہیں بدلا‘ نہ خلیفہ کی سوچ بدلی‘ نہ علما بدلے اور نہ حلال حرام کے فتوے۔