ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

خون میں آکسیجن کی مقدار، جدید ٹیکنالوجی اور انسانی صحت

تحریر: برائن چین

 ایپل کی نئی سمارٹ واچ کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ خون میں آکسیجن کی مقدار۔ خون میں آکسیجن کی مقدار ناپنے کی صلاحیت سے صحت میں مجموعی بہتری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کمپنی کی واچ سیریز 6 میں یہی نیا فیچر لگایا گیا ہے جس کی پچھلے مہینے رونمائی کی گئی ہے۔ یہ فیچر عین اس وقت سامنے آیا ہے جب دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ بعض مریضوں کے خون میں کورونا وائرس کی وجہ سے آکسیجن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے مگر یہ فیچر ہمارے لئے کس قدر مفید ہے؟ میرے پاس اس نئی واچ کی مدد سے اپنے خون میں آکسیجن کی مقدار ناپنے کے لئے ایک دن تھا۔ میں نے تین ٹیسٹ کئے تو میرا آکسیجن لیول 99 اور 100کے درمیان رہا۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ اس انفارمیشن کا کیا کرنا ہے؛ چنانچہ میں نے دو میڈیکل ایکسپرٹس سے اس نئے فیچر کے بارے میں پوچھا۔ دونوں اس نئے فیچر کے بارے میں ریسرچ کے حوالے سے بہت پُرامید تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکمل درستی کے ساتھ جسم میں آکسیجن کی مقدار سے ہم صحت کے حوالے سے کئی دیگر علامات مثلاً بے خوابی کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف مشی گن میں بے خوابی کی فزیشن کیتھی گولڈ سٹین‘ جنہوں نے واچ کے جمع کردہ ڈیٹا پر تحقیق کی ہے‘ کہتی ہیں کہ ’’ڈیٹا کی مسلسل ریکارڈنگ ٹرینڈز کو دیکھنے کے لئے ایک لچسپ چیز ہے‘‘ مگر زیادہ تر وہ لوگ جو صحت مند ہیں‘ ان کی آکسیجن میں روزانہ کی بنیاد پر پیمائش کرنے سے ہمیں ضرورت سے زیادہ انفارمیشن مل جائے گی۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے امراضِ قلب کے ایک ماہر ایتھان ویس نے بتایا کہ مجھے اس بات کی فکر تھی کہ خون میں آکسیجن کی مقدار کی پیمائش سے لوگوں میں انزائٹی پیدا ہو گی اور وہ غیر ضروری ٹیسٹ کرانے کے چکروں میں پڑ جائیں گے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ بات مثبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی۔ اس طرح لوگوں کو ڈاکٹروں کے کلینکس سے دور‘ گھروں پر رکھا جا سکتا ہے مگر اس سے لوگوں میں بہت زیادہ انزائٹی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔یہاں یہ با ت یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ سمارٹ واچز میں اب نئے ہیلتھ مانیٹرنگ فیچرز شامل ہوں گے جو ہمارے بارے میں انفارمیشن دیا کریں گے اور ہمیں یہ سیکھنا پڑے گا کہ انہیں استعمال کیسے کرنا ہے۔ جب 2018ء میں واچ سیریز4  نے لوگوں کے لئے الیکٹریکل ہارٹ سینسر متعارف کرایا تھا تاکہ ای سی جی کی جا سکے تو دل کے مریضوں کے لئے اپنی صحت کو مانیٹر کرنا بہت آسان اور مفید ہو گیا تھا مگر ڈاکٹرز نے وارننگ دی تھی کہ یہ بالکل ایک نیا فیچر ہے اور ا سے لوگوں میں دل کی بیماری کی تشخیص کرنے اور کوئی حتمی نتائج اخذ کرنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ ہم دوبارہ اسی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر گولڈسٹین کا کہنا ہے کہ انسان کے خون میں آکسیجن کا لیول 95سے 100کے درمیان رہتا ہے۔ جب لوگوں میں پھیپھڑوں کی بیماری، بے خوابی اور نظامِ تنفس میں انفیکشن کا عارضہ ہو جائے تو یہ سطح کم ہو کر 60کی رینج میں آ جاتی ہے۔ اگر آپ سمارٹ واچ خرید لیتے ہیں اور آپ کو اپنے خون میں ہر وقت آکسیجن لیول تک رسائی مل جاتی ہے تو آپ کو اس کے ڈیٹا کے بارے میں سوچنے کے لئے ایک خاص فریم ورک چاہئے۔ سب سے اہم بات یہ کہ آپ کے پا س ایک پرائمری کیئر فزیشن ہونا چاہئے جس کے ساتھ آپ اپنی انفارمیشن شیئر کر سکیں اور پھر وہ آپ کی مجموعی صحت کا تعین کرے مگر جب معاملہ میڈیکل ایڈوائز اور تشخیص کا آتا ہے تو اسے ہمیشہ کسی ڈاکٹر پر چھوڑ دینا چاہئے۔ اگر آپ اپنے خون میں آکسیجن لیول میں بہت گراوٹ دیکھتے ہیں تو یہ ضروری نہیں کہ آپ کسی قسم کی گھبراہٹ کا شکار ہو جائیں۔ آپ کوکوئی فیصلہ کرنے کے لئے اپنے ڈاکٹر کے ساتھ بات کرنی چاہئے کہ کیا اس کی مزید تشخیص ہونی چاہئے۔ اگر آپ کے اندر بیماری کی علامات پائی جائیں مثلاً بخار، کھانسی وغیرہ تو نارمل بلڈ آکسیجن ریڈنگ کی صورت میں بھی آپ کو اپنے ڈاکٹر کے ساتھ بات کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ اپنی واچ نہیں بلکہ اپنے ڈاکٹر کو ایکشن پلان بنانے کا موقع دیجئے۔ ڈاکٹر ویس کہتے ہیں کہ بلڈ آکسیجن مانیٹرنگ شاید ان لوگوں کے لئے زیادہ مفید ہو جو پہلے سے ہی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں مثلاً اگر کوئی شخص دل کا مریض ہے اور جسمانی ورزش کے دوران اس کے خون میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے تو یہ انفارمیشن اس کے ڈاکٹر کے ساتھ شیئر کی جا سکتی ہے جو اس کے مطابق اپنے علاج میں ضروری رد و بدل کر سکتا ہے۔ یہ انفارمیشن اس مقصد کے لئے بھی استعمال کی جا سکتی ہے کہ کیا مریض کو ہسپتال منتقل کرنا ہے یا نہیں۔ ڈاکٹر ویس کہتے ہیں ’’اگر کوئی مریض مجھے فون کرتا ہے کہ میں کورونا وائرس کا مریض ہوں اور میرے خون میں آکسیجن لیول 80فیصد ہے تو میں اسے فوری طور پر ہسپتال شفٹ ہونے کے لئے کہوں گا‘‘۔آخر میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہیلتھ ڈیٹا فوری استعمال کے لئے اتنا مفید نہیں ہوتا اور ہمیں خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس انفارمیشن کا بہترین استعمال کیسے کیا جا سکتا ہے۔واچ کمپنی کوئی مشورہ نہیں دیتی کہ آپ نے کیا کرنا ہے اور اس انفارمیشن کو کیسے لینا ہے‘ بالکل ویسے ہی جس طرح ویٹ سکیل آپ کو کوئی ڈائیٹ پلان بنا کر نہیں دے سکتا ہے۔ ڈاکٹر گولڈ سٹین کہتی ہیں ’’اگر آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ڈیٹا آپ کو پریشان کر رہا ہے تو آپ آرام سے اس کے ان فیچرز کو غیر فعال کر سکتے ہیں‘‘؛ تاہم اگر خون میں آکسیجن کی مقدار ناپنا آج ہمیں ایک غیر سنجیدہ عمل لگے تو ہمیں اپنے ذہن کو کھلا رکھنا چاہئے کہ دل کو مانیٹر کرنے والی نئی ٹیکنالوجیز مستقبل میں ہمارے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔

ڈاکٹر گولڈ سٹین اور ڈاکٹر ویس کا نیند کے مسائل کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ اس حوالے سے Wearable  یعنی پہن کر سونے والے کمپیوٹرز انسانوں کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔ یہ ایک طرح سے Catch-22 جیسا مخمصہ ہے۔ اگر آپ کے اندر بے خوابی کی علامات موجود تھیں‘ جن میں کم بلڈ آکسیجن لیول بھی شامل ہے تو آپ کا ڈاکٹر فوری طور پر آپ کو ٹیسٹ کرانے کے لئے کہے گا مگر جب آپ سو رہے ہوں تو آپ کو بے خوابی کی علامات کا پتا نہیں چل سکے گا اور اس بیماری کی سٹڈی ناممکن ہوگی۔ سمارٹ واچ وقفے وقفے سے آپ کے خون میں آکسیجن کی مقدار کی پیمائش کرتی رہے گی حتیٰ کہ جب آپ سو بھی رہے ہوں گے تو یہ اپنا کام کرتی رہے گی۔ اس لئے جب ہم نیند کی حالت میں بھی اپنا ڈیٹا جمع کر لیں گے تو ہم ایسے حقائق سے بھی آگاہ ہو سکتے ہیں جو عموماً ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ڈاکٹر گولڈ سٹین کہتی ہیں ’’جب تک ہم اس کو استعمال میں نہیں لاتے ہم نہیں جانتے کہ کیا یہ انفارمیشن ہم انسانوں کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتی ہے یا نہیں‘‘۔ 

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں