ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

دو ویکسینز کا مشترکہ استعما ل اور نتائج …(2)

تحریر: کارل زیمر

امریکا میں کووڈ کے مریضوں کی کم ہوتی تعداد اور کثیر تعداد میں ویکسین لگ جانے کے باوجود بائیڈن حکومت نے بوسٹر شاٹ لگانے پر اصرار کرنا شروع کر دیا تاکہ لوگوں کا امیون سسٹم مزید طاقتور او ربحال ہو جائے۔ فائزر اور بائیو این ٹیک نے اپنی اپنی ویکسین کے بوسٹر ٹرائلز شروع کر دیے جبکہ ماڈرنا نے اپنی سٹڈیز شروع کر دیں۔ گزشتہ ماہ ایف ڈی اے نے فائزر اور بائیو این ٹیک ویکسین کی ان لوگوں کے گروپس کے لیے بوسٹر شاٹس کی منظوری دے دی‘ جو اس سال پہلے ہی ویکسین کی دو خوراکیں لے چکے تھے۔ اس ہفتے اس نے ماڈرنا کی بوسٹر شاٹ کی بھی منظوری دے دی ہے۔

جانسن اینڈ جانسن نے اپنی ویکسین کے لیے سنگل ڈوز استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر کلینکل ٹرائلز میں یہ باقی تینوں ویکسینوں کے مقابلے میں کم مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ مہینے ایک سٹڈی شائع ہوئی تھی جس میں یہ بتایا گیا کہ ہسپتال میں داخلے کے حوالے سے جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین 71 فیصد مؤثر ثابت ہوئی جبکہ اس کے مقابلے میں فائزر اور بائیو این ٹیک کی یہی شرح 88 فیصد اور ماڈرنا کے کیس میں یہ شرح 93 فیصد مؤثر ثابت ہوئی۔ گزشتہ ہفتے‘ جمعہ کے روز ایف ڈی اے کے ایڈوائزرز نے جانسن اینڈ جانسن کی دوسری ڈوز بطور بوسٹر لگانے کے حق میں ووٹ دیا تاکہ ان لوگوں کی امیونٹی کو قوی بنایا جا سکے جو اس کی پہلی خوراک لے چکے تھے مگر ایف ڈی اے کے اعلیٰ ترین ریگولیٹر ڈاکٹر پیٹر مارکس نے ایک ملاقات میں بتایا کہ اس بات کا امکان بھی ہے کہ ایجنسی لوگوں سے یہ نہیں کہے گی کہ وہ ویکسین کی بوسٹر شاٹ بھی اسی کمپنی کی لیں۔ ایجنسی اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ تینوں منظور کردہ ویکسین کے لیبل پر چھپی ہدایات میں کچھ رد وبدل کرے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ ویکسین مہیا کرنے والے اپنی مرضی سے منظور شدہ تینوں ویکسینوں میں سے کوئی بھی بوسٹر شا ٹ کے طورپر لگانے میں آزاد ہوں گے۔

 اگلا سوال یہ ہے کہ یہ بوسٹر شاٹ کتنا مؤثر ثابت ہو گا؟اس سال کے آغاز میں یورپ میں ہیٹرولوگس پرائم بوسٹ پر ہونے والی ایک سٹڈی میں یہ کہا گیا تھا کہ مکسڈ ویکسین سے کووڈ کے خلاف ایک بہتر تحفظ ملتا ہے۔ جون میں امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے ان ٹرائلز میں ویکسین تنوع شروع کر دیا تھا‘ مقصد یہ دیکھنا تھا کہ جب پوری ویکسین لگوانے والے افراد بوسٹر شاٹ کے لیے کسی دوسری ویکسین پر شفٹ ہوتے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یونیورسٹی آف میری لینڈ سکول آف میڈیسن کی ڈاکٹر کرسٹن لائیک نے گزشتہ ہفتے ایف ڈی اے کی ایک میٹنگ میں ان ٹرائلز کے پہلے نتائج پیش کیے تھے۔ ریسرچرز نے ایسے لوگوں کو منتخب کیا تھا جنہوں نے امریکا میں منظور شدہ تین میں سے ایک ویکسین لگوائی ہوئی تھی اور پھر انہوں نے ان تین میں سے ایک ویکسین بطور بوسٹر شاٹ لگوائی۔ سب نے بتایا کہ انہوں نے اُن نو گروپس کا موازنہ  کیا جن میں ہر گروپ میں 50 رضاکار شامل تھے۔ ڈاکٹر کرسٹین اور ان کے کولیگز کو پتا چلا کہ اس بات سے قطع نظر کہ کس رضاکار نے کون سی ویکسین لگوا رکھی تھی‘ دوسری ویکسین کا بوسٹر شاٹ لگوانے سے رضا کاروں کے جسم میں اینٹی باڈیز کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر کرسٹین نے بتایا ’’مجھے لگتا ہے کہ یہ ویکسینز مل کر بہتر نتائج دیں گی‘‘، اور کسی دوسرے اور نئے بوسٹر پر شفٹ ہونے سے کوئی زیادہ سائیڈ ایفیکٹس بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ جن لوگوں نے شروع میں جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین لگوائی تھی ان کے نتائج خاص طور پر حیران کن تھے۔ جن لوگوں نے بھی جانسن اینڈ جانسن کی بوسٹر شاٹ لگوائی تھی‘ دیکھا گیا کہ ان میں چا رگنا زیادہ اینٹی باڈیز بنے تھے۔ فائزر کی بائیو این ٹیک کا بوسٹر شاٹ لگوانے سے اینٹی باڈیز 35گنا اور ماڈرنا کے بوسٹر شاٹ نے اینٹی باڈیز کی تعداد 76گنا تک بڑھا دی تھی؛ تاہم ڈاکٹر لائیک نے اب تک کے نتائج کو دیکھتے ہوئے کسی قسم کی حتمی رائے قائم کرنے سے خبر دار کیا ہے۔ ریسرچرزکو قوی امید ہے کہ وہ اگلے مہینے تک یہ جان پائیں گے کہ مختلف بوسٹرز نے کس حد تک صرف اینٹی باڈیز ہی نہیں ’ٹی سیلز‘ کی تعداد میں بھی کتنا اضافہ کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نتائج کے حوالے سے جانسن اینڈ جانسن کی کارکردگی سب سے نمایا ں نظر آئے۔

آخری اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس دیگر آپشن بھی موجود ہیں؟ہاں ایسا بالکل ممکن ہے۔ اس وقت کووڈ کی 100 سے زائد ویکسینوں پرکلینکل ٹرائلز ہو رہے ہیں اور ان سے بھی زیادہ کے جانوروں پر ٹرائل ہو رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ملبورن کے امیونٹی کے ماہر ایڈم ویٹلے نے پیش گوئی کی ہے کہ ان میں سے بعض ویکسینز کہیں زیادہ بوسٹر ثابت ہو سکتی ہیں۔ mRNA یا ایڈینو وائرس سے بننے والی ویکسینز کے برعکس‘ جو ویکسین سنوفی پاسچر اور نووا ویکس نے بنائی ہیں‘ ان میں وائرل پروٹین کی زیادہ مقدار موجود ہے۔ ڈاکٹر ویٹلے کا کہنا ہے ’’میرا خیال تو یہ ہے کہ یہ پروٹین بوسٹرز اچھی ثابت ہو ں گی۔ جب پروٹین کی خاصی بڑی مقدار ہمارے جسم میں داخل ہو تی ہے تو یہ اینٹی باڈیز کے انتہائی بہتر رد عمل کے نتائج دیتی ہے‘‘۔ سنوفی کے ایک ترجمان نکولس کریس مان نے بتایا کہ ان کی کمپنی پروٹین پر مبنی ویکسین کے نتائج سے پوری طرح مطمئن ہے جسے ان لوگوں کو بطور بوسٹر لگایا جائے گا جنہوں نے پہلے سے کوئی دوسری ویکسین لگوا رکھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’ہماری کمپنی کا ارادہ ہے کہ ہم ایسی ویکسین بنائیں جسے پوری دنیا میں ایک آفاقی بوسٹر کے طو رپر لگایا جا سکے اور وہ پہلے سے لگی ویکسین سے قطع نظر لوگوں کی امیونٹی میں اضافہ کر دے‘‘۔

ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کووڈ سے ایک دیر پا تحفظ کے حصول کے لیے ہمیں کتنے بوسٹرز کی ضرورت پڑے گی۔ اگر ہمیں ہر سال کووڈ کا بوسٹر لگوانا پڑ گیا تو مِکس اینڈ میچ کی حکمت عملی ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگانے میں مدد فراہم کرے گی۔ اگر لوگوں کو یہ فکر نہ ہو کہ انہوں نے جو ویکسین لگوا رکھی ہے بوسٹر شاٹ بھی اسی ویکسین کی لگوانی ہے تو ان کے لیے باقاعدگی سے امیونائز ہونا بہت آسان ہو جائے گا۔ اس منصوبے کے لیے ہمیں فلو سے ایک مؤثر مثال مل سکتی ہے۔ ویکسین بنانے والی کمپنیاں ہر سال موسمی فلو کی ویکسین شاٹ کے لیے نئے بیچ تیار کیے جاتے ہیں۔ کچھ انفلوئنزا کے وائرس کو غیر متحرک کر دیتے ہیں۔ بعض کے اندر زندہ وائرس موجود رہتا ہے مگر وہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ لوگوں کو بیمار نہیں کر سکتا۔ کچھ کو انفلوئنزا پروٹینز میں سے کسی پروٹین کی مدد سے بنایا جاتا ہے۔ امریکا کے سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے پاس کوئی ترجیح موجودنہیں ہے کہ فلو کی ویکسین لینے کے لیے کون سی عمر مناسب ہوگی۔ (ختم)

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement