"KMK" (space) message & send to 7575

ہم گپیں نہ ماریں تو اور کیا کریں

گپیں مارنا ہمارا قومی شعار ہے۔ اس جملے میں لفظ ''گپیں‘‘ سے مراد لاف زنی‘ جھوٹ یا مبالغہ آمیز گفتگو نہیں بلکہ وقت گزارنے کے لیے کی جانے والی بے مقصد اور لا حاصل گفتگو ہے۔ ہم جہاں بیٹھیں گے‘ بو علی سینابن کر ہر موضوع پر بلا تکان بولنا شروع کر دیں گے۔ بقول مشتاق احمد یوسفی کے اس دور میں معقول شخص وہ ہے جو کسی کی بیمار پُرسی کے لیے جائے اور اسے علاج کے لیے کوئی دوا تجویز نہ کرے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ کسی کی بیمار پرسی کے لیے جائیں گے تو ڈاکٹری کے علم سے سوا دو سو میل کی دوری پر ہونے کے باوجود مریض کو دو چار قسم کے تیر بہدف نسخے بتائیں گے۔ عالم یہ ہے کہ کینسر کا علاج وہ شخص بتائے گا جس کی پنڈلی پر نکلا ہوا عام ساپھوڑا اُسے کئی ماہ سے تنگ کر رہا ہو گا۔ ہیپاٹائٹس کا علاج وہ شخص تجویز کرے گا جس کا نزلہ اسے کئی ہفتوں سے خوار کر رہا ہو گا اور آپ کو ڈینگی وکورونا کا سوفیصد شافی علاج بتانے والے کو اپنی خارش کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دو سال ہو گئے ہوتے ہیں۔
خیر سے گپیں مار نا کیونکہ ہمارا قومی شعار ہے‘ اس لیے یہ عاجزبھی بھلا اس عادتِ بد سے کیسے بچا رہ سکتا ہے ؟ بلکہ سچ پوچھیں تو یہ عاجز اس علت میں عام لوگوں سے کہیں زیادہ مبتلا ہے اور باوجود اس کی مذمت کرنے کے‘ اس سے باز نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ دنوں یہ عاجز اپنی گپوں کی علت پوری کرنے کی عرض سے لندن سے پاکستان آئے ہوئے اپنے مہربان دوست‘ بزرگ کالم نویس اور قانون دان بیر سٹر نسیم باجوہ کے ہاں صبح ناشتے چلا گیا۔ ناشتہ توصرف بہانہ تھا‘ اصلی مقصد اُن کی دانائی اور تجربے سے بھری گفتگو سننا تھا۔ میرا دوست غلام قادر بھی نسیم باجوہ کا مستقل قاری ہے‘ اُسے ان کی آمد کا پتا چلا تو وہ بھی میرے ساتھ چل پڑا۔ پھر برادرم سید عامر محمود نے سنا تو وہ بھی ساتھ ہو لیا۔ ناشتے میں ہم چار لوگوں نے مل کربمشکل دو پراٹھے ختم کیے مگر گفتگو ٹنوں کے حساب سے کرلی۔اسی دوران باجوہ صاحب کہنے لگے کہ میں گزشتہ پچاس سال سے برطانیہ میں ہوں اور ان پچاس برسوں میں مَیں نے اپنے دیسی لوگوں اور گوروں کے درمیان جوسب سے بڑا فرق دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ گورا ہماری طرح ایسے بیٹھ کر بلا مقصد گفتگو جسے عرفِ عام میں ہم گپ شپ کہتے ہیں‘ نہیں لگاتا۔ وہ فالتو وقت میں کتاب پڑھے گا‘ واک کرے گا‘ جم چلا جائے گا‘ باغ میں جاکر نیچرسے لطف اندوز ہو گا‘ پارک میں جا کر جا گنگ کرے گا‘ جھیل اوردریا یا ندی پر جا کر مچھلیاں پکڑے گا‘سائیکلنگ کرے گا یا کسی اور سرگرمی میں حصہ لے گا۔
میں نے چور نظروں سے قادر کی طرف دیکھا اور اُسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا کہ بہت گپ بازی ہوگئی ہے‘ اب روانہ ہوتے ہیں۔ نسیم باجوہ مسکرا کر کہنے لگے: میرا مطلب ہے کہ گورا بے مقصد اور لاحاصل گفتگو نہیں کرتا‘ اس وقت تو علمی گفتگو ہورہی ہے۔ میں نے بھی مسکرا کر کہا کہ اگر یہ علمی گفتگو ہے تو الحمد للہ ہم ہمیشہ ہی اسی قسم کی بامقصد اور معلوماتی گفتگو کرتے ہیں۔ واپسی پر قادر مجھے کہنے لگا کہ اس نے آج کی اس نشست میں باجوہ صاحب کی شخصیت میں دو‘ تین بڑی شاندار خوبیاں دیکھیں اور اللہ سے دعاکی ہے کہ اگر اسے لمبی زندگی عطا کرے تو وہ اس کریم سے وہی دو‘ تین عطائیں اپنے لیے طلب کرے گا۔ پہلی یہ کہ اٹھاسی سال کی عمر میں بھی اسے نسیم باجوہ کی طرح جسمانی طور پر متحرک رہنے کی توفیق بخشے۔ عمر کے اس حصے میں جب ہمارے بزرگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی زندگی کے آخری سال محض اپنے گناہوں کاتذکرہ کرنے یا انہیں بخشوانے کے لیے دعا کرنے میں گزار دیتے ہیں‘ باجوہ صاحب بر طانیہ سے ہر سال پاکستان آتے ہیں اور اس تنزل کی طرف مائل ریاست اور معاشرے کو اس کے حال پر چھوڑ دینے‘ منفی گفتگو کرنے اور مایوسی پھیلانے کے بجائے اس کی بہتری اور مثبت تبدیلی کے لیے اپنی طاقت سے بڑھ کر بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک تنظیم بھی بنائی ہوئی ہے اور وہ اس کے پلیٹ فارم پر پاکستان کے کئی شہروں میں لکھاریوں‘ صحافیوں‘ دانشوروں‘ سماجی کارکنوں اور محب وطن پاکستانیوں کو اکٹھا کر کے اس ملک اور معاشرے کی سمت درست کرنے کیلئے اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ یہ گویا ایک طرح سے تھنک ٹینک کی طرز پر ایک مہم چلا رہے ہیں۔قادر کہنے لگا: میں ان کا پرانا قاری ہوں اور ان کی تحریروں سے محبت کے باعث ان سے ملنے آگیا تھااور دل میں دعا کر رہا تھا کہ ان سے مل کر ویسی مایوسی نہ ہو جیسی کئی ایسے لوگوں سے مل کر ہوئی جومیرے آئیڈیل تھے اور جن سے مجھے ملنے کابڑا اشتیاق تھا مگر ملنے کے بعد ایسی مایوسی ہوئی کہ خیال آیا کہ اگر ان لوگوں سے نہ ہی ملتے تو بہتر تھا۔ وہ امیج تو برباد نہ ہو تا جو برسوں سے دل میں ان کے متعلق تھا۔ آج باجوہ صاحب کو مل کر گزشتہ مایوسیوں کا مداوا ہو گیا ہے اور دل سے دعا نکلی ہے کہ میرا مالک مجھے بھی ان کی مانندذہنی طور پر چاق و چوبندرکھے‘ کچھ کر گزرنے کی لگن عطا کرے۔ گفتگو سے بڑھ کر عملی قدم اٹھانے کی توفیق بخشے اور زندگی کے ہر پہلوکا روشن اور مثبت پہلو دیکھنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ میں نے قادر کی دعا سن کر اپنے لیے بھی اس دعا پر آمین کہا۔
کالم گپیں مارنے کی ہماری قومی عادت سے شروع ہوا تھا اور کہیں اور چلا گیا۔ مجھ سے دوست پوچھتے ہیں کہ آخر تم اتنی مستقل مزاجی سے ملتان ہی میں کیوں ٹکے ہوئے ہو ؟ میں کہتا ہوں: اس شہر میں دوست ہیں اور دوست بھی ایسے کہ جن کے پاس میرے لیے وافر وقت بھی ہے۔ اب دوستوں کے پاس فالتو وقت ہو اور وہ گپیں نہ ماریں تو بھلا اس سے زیادہ فضول حرکت اور کیا ہو سکتی ہے ؟کل ملک خالد کا لندن سے فون آیا اور حسبِ معمول گفتگو برائے گفتگو شروع ہو گئی۔ میں نے اسے درمیان میں ٹوکتے ہوئے کہا کہ تم ایک عرصے سے گوروں کے درمیان رہ رہے ہو مگر اب تک بے مقصد اور لا حاصل گفتگو کرنے سے باز نہیں آئے۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ تمہیں ہم عام لوگوں کی گپ شپ پر اعتراض ہے‘ دوسری طرف ہمارے حکمران ایک عرصے سے جو کچھ کرنے میں مصروف ہیں‘ وہاں عام آدمی دل کے پھپھولے گفتگو سے نہ پھوڑے تو بھلا اور کیا کرے ؟ میں نے اسے کہا کہ علامتی گفتگو نہ کرے اور اسے جو بات کہنی ہے کھل کر کہے۔ وہ کہنے لگا کہ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب سلامی لیتے ہوئے پولیس کی وردی پہن کر آئی تھیں‘ کیا اس کی کوئی منطقی وجہ تمہاری سمجھ میں آتی ہے ؟ میں نے کہا مجھے کیا سمجھ آنی ہے مجھے جب اول اول یہ تصویر شوکت گجر نے دکھائی تو میں نے چھوٹتے ہی اس تصویر کو فیک اور ایڈیٹ شدہ قرار دے دیا مگر اس نے اپنا لیپ ٹاپ میری طرف گھما دیا‘ وہاں ایک اخبار کی ویب سائٹ کھلی ہوئی تھی اور یہ سوشل میڈیا کی نہیں اخباری خبر تھی۔ ملک خالد کہنے لگا: اللہ جانے یہ کون لوگ ہیں جو اس قسم کے مشورے دیتے ہیں۔ پہلے صرف وزیر فارغ ہوتے تھے لیکن مشیر بہرحال سمجھدار ہوتے تھے‘ اب تو مشیر بھی فارغ قسم کے آگئے ہیں۔ اب بھلا عام آدمی کو اس وردی والی تصویر سے کیا فائدہ؟ عام آدمی کو تو پولیس کے رویے میں تبدیلی درکار ہے اور مظلوم کو پولیس کے طریقہ کار اور نظام کی بہتری چاہیے۔ لوگ سرکار سے کسی اور شے کے طالب ہیں اور انہیں کچھ اور مل رہا ہے۔ تم کہتے ہو ہم گپیں نہ ماریں۔ جہاں حکمران ماورائے عقل کام کرتے ہوں وہاں ہم گپیں مار کر دل نہ بہلائیں تو بھلا اور کیا کریں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں