جناب عارف حبیب کے سیاسی و معاشی مشورے

میرے کزن اور کلاس فیلو شفقت سعید پراچہ مُلک کے ایک انتہائی نیک نام بزنس مین ہیں۔ وہ کئی مرتبہ لا ہور چیمبر آف کامرس کے صدر اور نائب صدر بھی رہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ شفقت چیمبر کے دیگر کئی تجربہ کار اور ریسرچ مائنڈڈ تاجروں اور صنعت کاروں کے ساتھ مل کر ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں کہ ایسی معاشی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ کسی کے آگے کاسۂ گدائی نہ پھیلانا پڑے۔
ان باہمت تاجروں کا وژن یہ ہے کہ آمدنی کم ہو یا زیادہ ہم اپنی دھرتی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے اور حکومت کو پہیم ایسے مشورے دیتے رہیں گے جن سے ملکی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو اور برآمدات درآمدات سے بہت زیادہ ہو جائیں ۔ ان کے دل و دماغ پر یہ دھن ہمیشہ سوار رہتی ہے کہ ہماری زراعت کو جدید ترین بنیادوں پر استوارکریں تاکہ ہمیں اپنی زمینوں سے تین گنا زیادہ پیداوار حاصل ہوسکے۔ نئی نئی صنعتیں لگیں اور بالخصوص آئی ٹی کے شعبے میں ہم بھی بڑے بڑے شہروں میں ''جہانِ حیرت‘‘ قائم کریں۔ اپنی برآمدات بڑھائیں اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے وسیع تر مواقع پیدا کریں۔ چیمبر آف کامرس کے ان تجربہ کار تاجروں کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ نوجوانوں نے اس شعبے سے زرمبادلہ کی شکل میں حاصل ہونے والی آمدنی کی جھلک دیکھ لی تو پھر وہ ملکی و غیر ملکی ملازمتوں کو بھول جائیں گے۔
میں نے شفقت سے پوچھا کہ کبھی اس کی ملاقات کراچی کے ممتاز صنعتکار جناب عارف حبیب سے ہوئی ہے؟ لاہور چیمبر کے اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ہاں دو‘ تین مرتبہ اُن سے ملکی اور بین الاقوامی بزنس کانفرنسوں میں مختصر بات چیت کا موقع ملا ہے۔ میرے کزن کی معلومات کے مطابق عارف حبیب نہایت دیانتدار اور محنتی صنعت کار ہیں۔ وہ ہر کانفرنس میں موضوعِ زیرِ بحث پر معلومات کے دریا بہا دیتے ہیں۔ وہ سچی اور کھری بات کہنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ دل کی بات کو دل میں چھپا کر نہیں رکھتے۔ وہ ملک کے مفاد کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں۔ بدھ کے روز وزیر اعظم شہباز شریف نے تاجر برادری سے کراچی میں خطاب کرنے کے بعد جب انہیں سوالات اور تجاویز پیش کرنے کی دعوت دی تو عارف حبیب نے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہر کے بزنس مینوں کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا ۔
پہلے تو انہوں نے جناب وزیراعظم کی دلوں کو جوڑنے اور سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی حکمت عملی کو بہت سراہا‘ پھر انہوں نے وزیراعظم کے اُن اقدامات کی بھی بہت تعریف و توصیف کی جن کی بنا پر پاکستان کی سٹاک مارکیٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ان تعریفی کلمات کے بعد شہباز شریف سے مخاطب ہوتے ہوئے وہ دل کی بات زباں پر لے آئے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے ہاتھ ملایا‘ میں چاہتا ہوں کہ آپ دو ہاتھ اور ملائیں۔ ایک ہاتھ بھارت سمیت دیگر پڑوسیوں سے اور دوسرا ہاتھ اڈیالا جیل کے باسیوں سے ملائیں۔ اس کے علاوہ صنعت کار عارف حبیب نے کہا کہ آرمی چیف سے پہلی ملاقات میں بھی عمران خان پر بات کی تھی اور اُن سے کہا تھا کہ شدید نوعیت کی سیاسی تقسیم کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔جناب آرمی چیف اور وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے سامنے پیش کردہ ان تجاویز میں ممتاز صنعت کار نے دو اہم نکات کی طرف پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کے لیے سیاسی استحکام بھی بہت ضروری ہے۔ اگر ملک میں سیاسی افراتفری اور ہر وقت کے احتجاجی جلسے جلوس ہوں گے تو معیشت کے پھیلنے پھولنے کے لیے سازگار فضا میسر نہیں ہوگی‘ اس صورت میں مطلوبہ اقتصادی اہداف اور کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔دوسرا نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ ہمیں پڑوسی ملک بالخصوص بھارت کے ساتھ تجارت سے بے پناہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں‘ ہم اس دوطرفہ تجارت کے دروازے کیوں نہیں کھولتے؟ شاید وزیراعظم پاکستان کو ان دونوں نکات پر اذنِ گویائی حاصل نہیں تھا اسی لیے انہوں نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا۔
کراچی کے تاجروں نے وزیراعظم کے سامنے بُزِاخفش کی طرح سر ہلانے کے بجائے تجارتی سرگرمیوں کے ماند پڑنے اور اس شعبے میں پیش آنے والی مشکلات کا دو ٹوک انداز میں ذکر کیا۔
زبیر موتی والا بھی کراچی کے ایک معروف صنعت کار ہیں۔ وہ کراچی کے بزنس مینوں کی ایک نمائندہ باڈی 'بزنس مین گروپ‘ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم صاحب کو اپنے گروپ اور کراچی چیمبر آف کامرس کی طرف سے مشترکہ پریزنٹیشن دی۔ بزنس باڈی کے سربراہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران گیس کی بے پناہ قیمتیں بڑھی ہیں‘ اس اضافے نے تجارتی و صنعتی کمپنیوں کی کمر توڑ دی ۔اسی طرح بجلی کے نرخوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ ان نرخوں کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنا پاکستان کی صنعت و تجارت کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔موتی والا نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اس بجلی کی بھی ادائیگی کرنا پڑتی ہے جو وہ پیدا نہیں کرتے‘ پاکستان پر پڑنے والے اس وزنی بوجھ نے ملکی معیشت کو ادھ مواکردیا ہے۔ جب تک ہم گردشی قرضوں کے جنجال سے جان نہیں چھڑالیتے اس وقت تک ہم شاہراہِ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتے۔
اس وقت پاکستان بہت سی چیزیں یورپی ممالک اور امریکہ سے درآمد کر رہا ہیں اور انہیں اپنی کچھ برآمدات بھیج رہا ہیں۔ پاکستان اور ان ممالک کے درمیان زیادہ فاصلہ ہونے کی بنا پر وہاں سے اشیا منگوانے اور انہیں بھجوانے پر ٹرانسپورٹیشن کے بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر بھارت سے درآمد و برآمد کی جائے تو مال بھجوانے اور منگوانے پر خرچہ بہت کم ہوتا ہے ۔ نیز ہم کئی شعبوں بالخصوص زراعت اور آئی ٹی میں بھارت کے تجربات سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت کے وسیع تر مواقع ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان 2022ء میں صرف 2.3 بلین ڈالر کی تجارت ہو رہی تھی جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان 37 ارب ڈالر کی سالانہ تجارت بآسانی ہو سکتی ہے۔ عالمی بینک ہی کی رپورٹ کے مطابق سارک ممالک میں اس وقت تجارت کا حجم 23 بلین ڈالر ہے یہ تجارت 67 بلین ڈالر تک جا سکتی ہیں ۔انڈیا پاکستان کو کاٹن‘کیمیکلز‘فوڈپراڈکٹس‘جانوروں کا خشک چارہ‘ آرگینک سبزیاں‘ پلاسٹک آئٹمز‘کافی‘ چائے‘ مسالا جات برآمد کرسکتا ہے جبکہ پاکستان نمک‘ مختلف اقسام کے پتھر‘ ماربل‘ پلاسٹر‘ فرنیچر‘ کھالیں اور لیدر ایکسپورٹ کر سکتا ہے اور پہلے بھی کرتا رہا ہے۔پاکستان گزشتہ سالوں میں بھارت کو جپسم‘خام مال کی صورت میں ٹرکوں کے ٹرک بھیجتا رہا ہے۔ جپسم سیمنٹ‘ بھاری کھاد‘ پینٹس اور پلاسٹر آف پیرس کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔اسی طرح سیلیکا ریت بھی بھارت کوبرآمد کی جاتی رہی ہے ۔ چین اور ایران سے ہمارے تعلقات مثالی ہیں‘ اب انڈیا اور افغانستان سے بلاتاخیر معاملات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے ممتاز صنعتکار جناب عارف حبیب دلِ درد مند رکھتے ہیں اور ملک کے سیاسی استحکام اور معاشی خوشحالی کے لیے ہر نئے اور پرانے سیاسی و عسکری دروازے پر دستک دے رہے ہیں ۔ہمیں امید ہے کہ انہیں اس مخلصانہ دستک کا ضرور مثبت جواب ملے گا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں