اس دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کے سارے خواب پورے ہوئے ہوں۔ بیشتر لوگ خوابوں کی ایک برات لے کر زندگی کا آغاز کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوتا جس کے سارے خواب پورے ہوئے ہوں۔ ان میں دنیا کی کامیاب ترین اور مشہور شخصیات بھی شامل ہیں۔ سائنسدانوں‘ شاعروں‘ ادیبوں اور سیاستدانوں کی ہزاروں سوانح عمریاں اس امر کی دلالت کرتی ہیں۔ کوئی زندگی میں استاد بننے کا خواب دیکھ رہا تھا تو وہ پارلیمان کا ممبر بن گیا۔ جو پائلٹ بننا چاہتا تھا وہ سائنسدان بن گیا۔ کوئی حکمران اشرافیہ کا حصہ بننا چاہتا تھا مگر تاجر بن گیا۔ اپنی خواہشات اور خوابوں کے آئینے میں ناکام ہونے کے باوجود کچھ زندگی میں کامیاب ترین لوگ ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنے میدان‘ جس کا انہوں نے انتخاب کیا یا محض حادثاتی طور پر اس میں چلے گئے‘ میں بے پناہ کامیابیاں اور شہرت حاصل کی‘ جس کی وجہ سے ان کی ناکامیاں یا ٹوٹے ہوئے خواب پس منظر میں چلے گئے۔ دنیا ان کو کامیاب لوگوں میں شمار کرتی ہے‘ مگر ان کے ٹوٹے خوابوں اور ناکامیوں کا کسی کو نہ علم ہوتا ہے‘ نہ ہی اس سے دلچسپی۔ لیکن جن لوگوں کے خواب ٹوٹتے ہیں‘ یا جنہوں نے زندگی کی مجبوریوں کے پیشِ نظر اپنے خواب ہی بدل دیے ہوں‘ ان کے لیے یہ بات بڑی اہم ہوتی ہے کہ ان کے کچھ خواب ادھورے رہ گئے‘ انہیں اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کا احساس ہمیشہ رہتا ہے۔ اپنے ادھورے رہ جانے والے خوابوں پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ انہیں اس بات پر بھی پشیمانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے خوابوں پر ایڈجسٹمنٹ کرنے پر مجبور ہوئے‘ لیکن پھر وہ یہ سوچ کر یک گونہ اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے خوابوں پر ایڈجسٹمنٹ نہ کرتے‘ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے خواب نہ بدلتے تو شاید زندگی میں مکمل طور پر ناکام اور تباہ ہو جاتے۔ یہ افراد اور اشخاص کا قصہ ہے؛ تاہم اس میں جو اصول ہے‘ وہ ریاستوں اور قوموں پر بھی صادق آتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال‘ ان کی کامیابیوں اور تباہیوں کے پس منظر میں یہی اصول کارفرما ہوتا ہے۔
افراد کی طرح دنیا میں کئی قوموں‘ ریاستوں اور سلطنتوں نے بھی طرح طرح کے خواب دیکھے۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے کئی راستے اختیار کیے‘ جنگیں لڑیں‘ امن معاہدے اور سمجھوتے کیے۔ مگر تاریخ میں ہر قوم یا ریاست نہ تو اپنے خوابوں کی اصل تعبیر پا سکی اور نہ ہی اپنی خواہشات کے مطابق زندگی کو ڈھال سکی۔ طویل تاریخی عمل کے دوران کئی قوموں اور ریاستوں نے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے خواب بدلے اور اپنی بقا کے لیے نئے راستے تلاش کیے۔ جنہوں نے ایسا نہیں کیا‘ وہ تباہ کن انجام سے دوچار ہوئے۔ تاریخ کی دس بڑی ایمپائرز کا عبوری جائزہ اس اصول کی تصدیق کرتا ہے۔ ان میں سے برٹش ایمپائر کا قصہ تو ابھی تک جاری ہے‘ لیکن یہ خواب بدلنے اور نئے حالات کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی ایک شہکار مثال ضرور ہے۔ جس سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘ اس نے اپنے آپ کو ایک چھوٹے سے جزیرے تک محدود کرنا گوارا کیا۔ اپنے بدلتے خوابوں اور خواہشات کی روشنی میں ایک نیا روپ دھارن کیا۔ بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے لیے نیا کردار اور نیا مقام تلاش کرنے کی کوشش کی۔ زندگی کے بہت سے شعبوں میں اپنا لیڈرشپ رول برقرار رکھا۔ تعلیم‘ طبی سائنس‘ ٹیکنالوجی اور گورننس میں اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کی کوشش کی۔ یہ قوم نئے رول میں اس دنیا میں اپنے لیے کیا مقام حاصل کرتی ہے‘ اس سلسلے میں حتمی طور پر کچھ کہنا فی الحال مشکل ہے لیکن اس سلطنت نے نیا روپ دھار کر اپنے آپ کو اُن عظیم سلطنتوں کی فہرست سے نکال لیا جن کا دنیا سے نام و نشان ہی مٹ گیا۔ اسی طرح ماضی کی دیگر عظیم سلطنتوں میں سائرس اعظم کی پرشین ایمپائر‘ چینیوں کی ہن ڈائنیسٹی اور منگول ایمپائر‘ سپینش ایمپائر اور سوویت ایمپائر سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ تک کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس لمبی کہانی کا مقصد یہ ہے کہ افراد‘ اقوام اور ریاستوں کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا پڑتا ہے۔ پرانے خوابوں اور فرسودہ خواہشات سے جان چھڑانا پڑتی ہے‘ یہی ان کی بقا یا نئی شکل میں تسلسل کا راز ہوتا ہے۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ خواب زمینی حقائق سے متصادم نہ ہوں۔
ہر ملک و ریاست کے اپنے زمینی حقائق ہوتے ہیں‘ جنہیں ہم عام زبان میں معروضی اور موضوعی حالات کہتے ہیں۔ ملکوں کو ان حالات اور حدود کے اندر رہ کر خواب دیکھنے ہوتے ہیں۔ پاکستان کوئی استثنا نہیں ہے۔ یہ ایک ترقی پذیر ملک ہے‘ گو کہ 'ترقی پذیر‘ اب ایک پرانی اصطلاح ہے‘ اب اس کی مزید ذیلی اقسام بنا دی گئی ہیں جن کا تعین کسی ملک کی آمدن کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو ترقی پذیر کی کسی بھی قسم یا ذیلی اقسام میں شامل کیا جائے‘ ایک بات طے ہے کہ اس ملک کو ترقی پذیری کا عمل جاری رکھنے کے لیے کچھ بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کا ادراک کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک اور ایک ترقی پذیر ملک میں بنیادی فرق کیا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ملک کے پاس اعلیٰ درجے کی معیشت ہوتی ہے۔ یہ معیشت عموماً ایک اعلیٰ درجے کی صنعتی ترقی پر استوار ہوتی ہے۔ یہ معیشت جدید ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے۔ اس کے پاس ایک مضبوط انفراسٹرکچر ہوتا ہے۔ متنوع ذرائع آمدن ہوتے ہیں۔ جما جمایا اور قابلِ اعتماد مالیاتی نظام ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایک منظم اور مربوط نظامِ صحت اور جدید نظامِ تعلیم ہوتا ہے۔ فی کس آمدن مناسب ہوتی ہے۔ لوگوں کا معیارِ زندگی ایک خاص سطح تک بلند ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی کم یا ناقص ہے تو وہ ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکتا۔ ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے ان سبھی چیزوں پر فوکس ضروری ہے۔ پاکستان کی لیڈرشپ نے کبھی کوئی ایسا خواب نہیں دیکھا جس کا دُور پرے کا تعلق بھی مذکورہ بالا چیزوں سے ہو۔ اس کے برعکس یہاں کی حکمران اشرافیہ اور لیڈرشپ اس ملک کو ایک سکیورٹی سٹیٹ بنانے کا خواب دیکھتی رہی ہے۔ یہاں گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کی باتیں ہوتی رہیں اور اس پہ تالیاں بجتی رہیں‘ قرض لے کر میزائل بنانے کے منصوبے بنتے رہے مگر کسی نے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کا خواب نہیں دیکھا۔ عالمی معیار کے مطابق مالیاتی نظام بنانے کی بات نہیں کی۔ عام آدمی کا معیارِ زندگی بلند کرنے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے بارے میں کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ اور عملی طور پر کوئی ایک بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے ظاہر ہوتا کہ یہاں کسی کے دل میں ترقی یافتہ بننے کی کوئی خواہش‘ کوئی خواب موجود ہے۔
پاکستان میں اس وقت کسی بھی سطح پر انفراسٹرکچر کا کوئی بڑا منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔ مالیاتی نظام کوFATF کی شرائط پوری کرنے کے بعد مکمل سمجھا جا رہا ہے‘ اس میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بنیادی تبدیلیوں کا کوئی خیال کسی بھی سطح پر موجود نہیں۔ صحت و تعلیم کو پسماندگی اور فرسودگی سے نکالنے کے لیے کوئی بجٹ‘ کوئی سوچ موجود نہیں۔ حکمران اشرافیہ کے سارے منصوبے واجب الادا قرض کی ادائیگی اور مزید قرض کے حصول کے گرد گھومتے ہیں۔ ان حالات میں اگر کسی نے اس ملک کو کبھی ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب دیکھا بھی تھا تو وہ خواب اب یا تو ٹوٹ کر بکھر چکا ہے یا شاید حالات کے مطابق بدل گیا ہے۔