سابق صدر اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو عدالت کی جانب سے سزائے موت دیے جانے کے خلاف صدر آصف علی زرداری نے اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک ریفرنس بھیجا تھاکہ اُن کا ٹرائل منصفانہ نہیں تھا‘ لہٰذا اس پر نظرِ ثانی کی جائے۔ سابق چیف جسٹس صاحبان نے یہ ریفرنس معرضِ التوا میں رکھا‘ لیکن موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اس ریفرنس پر ایک نو رکنی بنچ بنایا‘ اس پر کئی سماعتیں کیں۔ اٹارنی جنرل جناب عثمان منصور اعوان اور بعض دیگر ماہرینِ آئین و قانون سینئر وکلا کو بطورِ معاون بھی بلایا‘ نیز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے بھی وکیل پیش ہوئے اور آخرِکار 8 مارچ کو سپریم کورٹ نے اصل فیصلے کو چھیڑے بغیر یہ فیصلہ صادر کیا: ''ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کا ٹرائل قانون کی رُو سے منصفانہ نہیں تھا‘‘۔ ظاہر ہے: فیصلہ تو نافذ ہو چکا‘ سزائے موت بھی دی جا چکی‘ اس فیصلے پر نظرِ ثانی پٹیشن کو پہلے ہی نمٹا دیا گیا تھا‘ پس اس کے بعد کسی اور نظرِ ثانی پٹیشن کی گنجائش نہیں تھی‘ تاہم ریفرنس کی گنجائش تھی۔ اس موقع پر جناب چیف جسٹس نے کہا: ''اسلامی احکامات کی روشنی میں اس مسئلے کے بارے میں کسی نے ہماری رہنمائی نہیں کی کہ اسلام کی رُو سے وعدہ معاف گواہ کی حیثیت کیا ہے‘‘۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ کسی سے رہنمائی طلب ہی نہیں کی گئی اور از خود سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کرنا مناسب نہیں لگتا۔ اس کے باوجود ہم وعدہ معاف یا سلطانی گواہ کے بارے میں قرآن وسنّت کی روشنی میں شرعی حکم بیان کیے دیتے ہیں تاکہ آئندہ کیلئے عدالت کے علم میں رہے‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق فیصلہ دیتی ہیں‘جبکہ ہماری یہ تمنا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتوں کے تمام فیصلے شریعت کے مطابق ہوں تاکہ کوئی بھی فیصلہ متنازع نہ ہو‘تفصیل درج ذیل ہے:
جو شخص کسی معاملے میں شریکِ جرم رہا ہو یا اُس کے ذریعے کوئی خلافِ قانون کارروائی کی گئی ہو اور حکومت کے پاس اُس جرم کے واضح ثبوت نہ ہوں‘ تو ایسے شریکِ جرم شخص کو بعض رعایتیں دے کر گواہ بنایا جاتا ہے‘ اُسے قانونی زبان میں وعدہ معاف یا سلطانی گواہ (Approver) کہا جاتا ہے۔ رعایت کی صورتیں مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں: (الف) اُسے جرم سے بری کر دیا جائے‘ (ب) اُس کی سزا میں تخفیف کر دی جائے‘ (ج) اُسے میرٹ کے خلاف ترقی دے دی جائے‘ (د) یا کسی اور طریقے سے اُسے نواز دیا جائے۔ شہادت کی بابت اسلام نے جو اُصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں‘ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ شہادت خالص اللہ کی رضا اور اس کے حکم کی تعمیل کیلئے ہونی چاہیے‘ ذاتی اغراض و مفادات کیلئے گواہی نہ دی جائے۔ لہٰذا اگرکسی مقدمے کے گواہ پر یہ تہمت ہو کہ وہ اپنے ذاتی مفادات و اغراض کے حصول کیلئے یاکسی شخص سے انتقام لینے یا اُسے نقصان پہنچاکر اپنے آپ کو کسی ضرر سے بچانے کیلئے اُس کے خلاف گواہی دے رہا ہے تو ایسے شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کیلئے گواہی دینے والے بن جائو‘ خواہ (یہ گواہی) تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور قرابت داروں کے خلاف ہو‘(فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب‘ اللہ ان کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے‘ لہٰذا تم عدل کرنے میں خواہشات کی پیروی نہ کرو‘ اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اِعراض کیا تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘ (النسآء: 135)۔ (2) ''اور اللہ (کی رضا)کیلئے گواہی دو‘‘ (الطلاق: 2)۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''خیانت کرنے والے مرد اور خیانت کرنے والی عورت‘ زانی مرد اور زانیہ عورت اور اپنے بھائی سے کینہ رکھنے والے شخص کی گواہی جائز نہیں ہے‘‘ (ابودائود: 3601)۔ علامہ ابن نجیم حنفی البحر الرائق میں اور علامہ ابن عابدین شامی العقود الدُرِّیہ میں ''قُنیہ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ''وہ عداوت جو دنیاوی سبب سے ہو‘ گواہی کیلئے مانع نہیں ہے‘ جب تک کہ اس کے سبب (اللہ تعالیٰ کی) حکم عدولی یا کسی فائدے کا حصول یا اپنی ذات سے کسی ضرر کو دور کرنا مقصودنہ ہو‘ یہی صحیح ہے اور اسی پر اعتماد ہے‘‘ (البحر الرائق‘ ج: 7‘ ص: 85‘ العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ‘ ج: 1‘ ص: 315)۔ الغرض وعدہ معاف گواہ کو چونکہ اس بات کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ شہادت کی صورت میں اس کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی یا سزا میں تخفیف کر دی جائے گی لہٰذا وہ اپنے ذاتی مفاد کے حصول اور دفعِ ضرر کیلئے دوسرے کے خلاف گواہی دیتا ہے‘ اس لیے اس کی گواہی معتبر نہیں ہے۔
سابق جسٹس تنزیل الرحمن لکھتے ہیں: ''گواہی دینے والا (شخص) ہر قسم کی تہمت سے پاک ہو: (الف) یہ کہ اس پر ایسی کوئی تہمت نہ ہو کہ وہ فائدے کے حصول یا اپنے آپ کو ضرر سے بچانے کیلئے شہادت دے رہا ہے‘‘ (مجموعہ قوانینِ اسلامی‘ ج: 7‘ ص: 85 تا 86)۔ وعدہ معاف گواہ مُدّعیٰ علیہ کے خلاف شہادت دے کر عدالت یا مُجاز ادارے سے اس کا معاوضہ اپنی جان بخشی یا سزا سے بچنے یا مال کے تحفظ کی صورت میں حاصل کرتا ہے‘ پس یہ شہادت کو فروخت کرنا ہے‘ ایسے شخص کی بابت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے حقیر دام لیتے ہیں‘ آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہیں اور قیامت کے دن نہ اللہ اُن سے کلام فرمائے گا‘ نہ ان کی طرف نظرِ (کرم) فرمائے گا‘ نہ ان کا تزکیہ فرمائے گا اور اُن کیلئے دردناک عذاب ہے‘‘ (آلِ عمران: 77)۔
یہ تو اُس صورت میں ہے: جب اُس گواہ پر کسی ایسے جرم کا الزام نہ ہو جو شرعاً فسق ہے‘ لیکن اگر اُس پر ایسا الزام ہو جو شرعاً بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ کی حکم عدولی ہے اور قانوناً بھی جرم ہے اور وعدہ معاف گواہ اپنی اس حکم عدولی کا اعتراف کر کے دوسرے کے خلاف گواہی دیتا ہے تو یہ گواہی اس لیے بھی معتبر نہیں ہو گی کہ اس کا اقرار اس کے مجرم اور فاسق ہونے کی دلیل ہے اور فاسق کی شہادت معتبر نہیں ہے۔ نیز یہ شخص اعترافِ جرم کی وجہ سے سزا کا حقدار ہے اوراس کا ایسا اعتراف خود اس کے خلاف تو ثبوت بن سکتا ہے‘ لیکن کسی دوسرے فرد کے خلاف دلیل نہیں بن سکتا تاوقتیکہ دوسری شہادتوں اور قرائن سے اُس شخص کا جرم ثابت ہو جائے۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے: ''قبیلہ بکر بن لیث کے ایک شخص نے نبی اکرمﷺ کے پاس آ کر چار بار اقرار کیا کہ اس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے تو آپﷺ نے (اقرارِ جرم کی بنا پر) اسے سو کوڑے لگائے‘ وہ کنوارا تھا‘ پھر اس سے اُس عورت کے خلاف گواہی طلب کی (وہ گواہ نہیں پیش کر سکا)‘ پھراُس عورت نے کہا: یارسول اللہﷺ! اللہ کی قسم! اس شخص نے جھوٹ بولا ہے‘ تو آپﷺ نے اُس شخص کو (بطورِ حدِّ قذف مزید) اسّی کوڑے لگائے‘‘ (ابودائود: 4467)۔
اس سے معلوم ہوا: اسلام کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی پر ثبوت و شواہد کے بغیر بہتان لگائے‘ الزام لگائے‘ جیساکہ آج کل ہمارے ہاں اس کا چلن عام ہے۔ نیز کسی شخص کا اعترافِ جرم اُس کی ذات پر تو حجت ہو سکتا ہے‘ لیکن جب تک فریقِ ثانی جرم کا اقرار نہ کرے اور اُس کے خلاف قابلِ قبول شرعی و قانونی گواہی یا ناقابلِ تردید قرائن و شواہد بھی نہ ہوں‘ تو اُسے مجرم قرار دے کر سزا نہیں دی جا سکتی‘ اس کیلئے شریعت کا مسلّمہ اصول ہے: ''نبیﷺ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: مدعی کے ذمے گواہ پیش کرنا ہے (اور اگرمدعی کے پاس گواہ نہیں ہیں اور مُدّعیٰ عَلَیہ اقرارِ جرم سے انکاری ہے) تو مُدّعیٰ عَلَیہ کو قسم دی جائے گی‘‘ (ترمذی: 1341)۔