ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

جب سوویت پرچم سرنگوں ہوا

تحریر: سرگی شمی مان

25 دسمبر 1991ء کو شام 7 بج کر 32 منٹ پر کریملن سے سوویت پرچم اتار دیا گیا اور اس کی جگہ کمیونسٹ انقلاب سے پہلے کا سفید، نیلی اور سرخ دھاریوں والا روسی پرچم لہرا دیا گیا۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا مگر ریڈ سکوائر میں اس منظر کو دیکھنے والوں میں مٹھی بھر غیر ملکی اور چند بزرگ روسی فوجی شامل تھے۔ میں اس لیے جانتا ہوں کی ان غیر ملکیوں میں میری بیوی اور بچے بھی شامل تھے۔ جب روسی پرچم لہرایا گیا تو وہ بھی تالیا ں بجا رہے تھے۔ آج سے تیس سال پہلے سوویت یونین کے آخری لیڈر میخائل گوباچوف نے الوداعی خطاب کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ میںاس دن اپنی فیملی کے ساتھ ریڈ سکوائر میں موجود نہیں تھا۔ اس شام میں نے ’دی ٹائمز‘ میں سوویت یونین کا نوحہ کچھ یوں لکھا تھا ’’وہ جسے ایک ’’یوٹوپیا‘‘ یعنی تصوراتی ریاست کے طور پر سوچا گیا اور 1917ء کے خونیں انقلاب کے ذریعے جس کا جنم ہوا، اس نے دسمبر 1991ء کے تاریک دنوں میں اپنے آخری سانس لیے۔ جس نے اپنا نظریہ ترک کر دیا، ٹوٹ کر بکھرنے والا، دیوالیہ پن کا شکار اور بھوک اور افلاس کا شکار سوویت یونین مگر اپنے زوال کے دنوںمیں بھی پُرجوش‘‘۔ بہت سے دوسرے مغربی لوگوں کی طرح میں بھی پُرامید تھا کہ کمیونزم کے جانے کے بعد ایک جمہوری عہد کا آغاز ہو گا جیسا کہ ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ کے مصنف فرانسس فوکو یاما نے دعویٰ کیا تھا مگر جن روسی آوازوں کو میں نے سنا تھا وہ زیادہ دلکش نہیں تھیں۔ حکومتی ترجمان روزنامہ ایزویسٹیا نے خبردار کیا تھا ’’سوویت یونین سے الگ ہونا طویل اور تکلیف دہ عمل ہو گا‘‘۔

سوویت ریاست نے عوام کے حقوق دینے سے انکار کر دیا تھا مگر اس نے ان کی جگہ انہیں کچھ اور دے دیا تھا۔ ایزویسٹیا نے لکھا ’’انہیں ایک سپر پاور کا فخر، قوم پرستی جیسی ایک قوت ملی جس نے لاکھوں جنونی حامیوں کو آپس میں جوڑے رکھا‘‘۔ مجھے شک ہے کہ پیوٹن حکومت کو گزشتہ مہینے اس وقت یہ سالگرہ یاد تھی جب اس نے روس کے سب سے بڑے ہیومین رائٹس گروپ میموریل انٹرنیشنل کو بند کیا تھا یا جب کریملن نے مغرب کو بلیک میل کرنے کی نیت سے یوکرائن کی سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کر دیں مگر ان اقدامات سے ایزوسٹیا کی پیشگوئیوں کی ناخوشگوار تصدیق ہو گئی۔ میموریل انٹرنیشنل 1980ء اور 1990ء کے اواخر کی یادگار نشانی تھا۔ یہ ایک ڈھیلی ڈھالی سی تنظیم تھی جو سٹالن کے ظالمانہ دور میں لیبر کیمپوں کے لاکھوں متاثرین کی یاد تازہ کرتی رہتی تھی۔ شروع میں تو حکومت اسے برداشت کرتی رہی مگر پیوٹن کے دور میں آ کر اسے غیر ملکی ایجنٹ اور دہشت گردی کی حامی قرار دے کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا۔ یہ الزامات سوویت عہد کے الزمات سے ملتے جلتے ہی تھے۔ میموریل انٹرنیشنل سوویت یونین کے ظلم اور جبر کے خلاف ایک داخلی ردعمل کا عکاس تھی۔ اسے عین اس وقت بند کیا گیا ہے جب روسی فوجیں یوکرائن کے بارڈر پر جمع ہیں۔ اس وقت سخت کشیدگی پائی جاتی ہے مگر یہ سب کچھ محض ایک اتفاق نہیں ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران ولادیمیر پیوٹن نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے باقی ماندہ زندگی کے لیے اقتدار پر اپنی گرفت انتہائی مضبوط کر لی ہے۔ اپنے حریف الیکسی نیونلی کو جیل میں ڈال دیا ہے۔ مغرب مخالف نعرے بازی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اسی جارحانہ صورتحال میں جو بائیڈن الیکشن جیت کر وائٹ ہائوس میں براجمان ہوئے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے تمسخر آمیز طرزِ عمل کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل‘ جنہوں نے روس کے بارے میں زیادہ تر یورپی پالیسی وضع کی تھی‘ بھی اقتدار سے رخصت ہو گئیں۔ واشنگٹن میں کام کرنے والے ایک سابق روسی سفارتکار ولادیمیر فرولوف لکھتے ہیں کہ 2021ء کے آغاز سے کریملن نے مغرب کے خلاف ایک نئی حکمت عملی اختیار کر لی ہے جسے اس نے طنزیہ انداز میں ’’دیتانت 2.0‘‘ کا نام دیا ہے۔ روسی ویب سائٹ Coltra.ru پر فرولوف نے لکھا ہے کہ اس نئی پالیسی کے اہداف یہ ہیں کہ مغرب کے ساتھ تعلقات مستحکم کریں لیکن روسی مفادات کی روشنی میں۔ اس میں سب سے اہم ہدف یوکرائن کی غیر جانبداری تھی اور اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ عالمی امور میں سوویت یونین کا سٹیٹس امریکا اور یورپی یونین کے برابر ہے۔ فرلوف نے لکھا کہ اس تبدیلی کے پس پردہ ولادیمیر پیوٹن کا یہ نظریہ بھی تھا کہ مغرب کے قریب جانے اور انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی اقدار کو قبول کرنے کا مطلب روسی ریاست کو نقصان پہنچانا ہے۔ مزید برآں کریملن یہ بھی سمجھتا ہے کہ 30 سال قبل کے برعکس امریکا اور اس کے اتحادی آج کل روبہ زوال ہیں، اب وہ چین کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ اب روس کے ساتھ دیتانت کی قیمت ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ فرلوف نے مزید لکھا ہے ’’ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ روس کا موقف ہمیشہ درست ہوتا ہے۔ یہی اس کا اصولی موقف ہے‘‘۔

اگر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے رفقا ایسا ہی سوچتے ہیں تو وہ کسی وقت خود کو غلطی پر پائیں گے۔ آج کا روس سوویت یونین نہیںہے۔ اس کی معیشت کو مغربی ممالک اور امریکا کی پابندیوں سے سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہیں جس طرح کی بھی داخلی مشکلا ت کا سامنا ہو‘ وہ روس کو خاطر خواہ معاشی نقصان پہنچانے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔ سوویت یونین کے برعکس روس بیرونی دنیا سے اپنی معلومات کو چھپا نہیں سکتا۔ باقی دنیا کی طرح روسی بھی اپنی انفارمیشن انٹرنیٹ سے ہی حاصل کر تے ہیں اور اب وہ نسبتاً زیادہ آزادی کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ سوویت یونین کے لیڈر جس طرح اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی پوزیشن میں تھے‘ پیوٹن کے پاس ایسی نظریاتی بنیاد کا فقدان ہے۔ اگرچہ وہ مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں مگر پھر بھی وہ کسی حد تک جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے پر مجبور ہیں۔ بے شک روسی عوام پیوٹن کے اس دعوے سے جتنا بھی اتفاق کریں کہ ہم یوکرائن کے ساتھ برادرانہ رشتے اور بندھن رکھتے ہیں مگر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یوکرائن کے خلاف روسی جارحیت کے جواب میں ان کا ردعمل کیسا ہو گا۔

مگر مغربی ممالک کو بھی یہ ادراک ہونا چاہئے کہ وہ روس کی دھمکیوں اور مطالبات کو محض خالی دعوے ہی نہ سمجھیں۔ اگر کسی فوجی کارروائی کے امکان کو مسترد بھی کر دیں، ان کے پاس روس کے خلاف کوئی خاص حربہ موجود نہیں ہے۔ روس کی ایک ناممکن سی خواہش ہے کہ سابقہ سوویت ریاستوں پر روس کے اثر و رسوخ کے حوالے سے کوئی رسمی معاہد ہ ہو جائے، امریکا کے پاس یہ روسی مطالبہ تسلیم کیے بغیر بھی کشیدگی کم کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ جمعرات کو پیوٹن اور جو بائیڈن کے ترجمانوں کے درمیان 50 منٹ کی گفتگو کے بعد ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سنگین دھمکیوں کو ہی دہرایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دو ماہ قبل جو پلان بنا ہے کہ آنے والے دنوںمیں امریکا اور روس کی نیٹو اور سکیورٹی سے متعلق امور پر بات چیت شروع ہو گی، اس بحران کو سفارت کاری سے حل کرنا درست سمت میں ایک قدم ہے۔ مغربی ممالک کو بھی روسی سلامتی کے مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ امریکا یوکرائن پر بھی دبائو ڈال سکتا ہے کہ وہ بھی کشیدگی کم کرنے کے لیے کوئی مناسب قدم اٹھائے؛ تاہم یوکرائن کو ڈرانا دھمکانا بھی ایک خطرناک جوا ہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement