ڈیجیٹل دور اور مطالعہ
تحریر: مبشر کفیل
مطالعہ و کتب بینی کی اہمیت و افادیت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے؟ جس طرح زندہ رہنے کے لیے کھانا‘ پینا اور سانس لینا ضروری ہے اسی طرح اپنے علم کو جلا بخشنے کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔ مطالعے کی عادت اختیار کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے گویا دنیا جہان کے دکھوں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کر لی ہے۔ علم کی ترقی اور مضبوط استعداد پیدا کرنے کے لیے مطالعہ و کتب بینی نہایت ضروری ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنے بھی لوگ علمی میدان میں بامِ عروج پر پہنچے‘ وہ مطالعے کی راہ سے ہی پہنچے ہیں۔ اس کے بغیر نہ استعداد پیدا ہو سکتی ہے نہ علم میں کمال آ سکتا ہے۔ طالب علم کیلئے مطالعہ سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے روزانہ چند صفحات ہی سہی‘ لیکن پابندی کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہئے۔ جب اس کی عادت ہو جائی گی تو علمی ذوق پیدا ہو گا۔ مطالعہ کرنے میں عجیب کیف اور لذت حاصل ہو گی اور لطف و سرور کی ایسی کیفیت پیدا ہو گی جو الفاظ سے بالاتر ہے۔
اسماعیل بن ابو الحسن عباد کو خلیفہ نوح بن منصور نے وزارت کی درخواست کرتے ہوئے لکھا: میں تمہیں اپنا وزیر بنانا چاہتا ہوں اور ملک کے انتظامات تمہارے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر اسماعیل بن ابو الحسن عباد نے جواباً لکھا ’’مجھے وزارت سے معاف رکھیے، مجھے کتابوں ہی میں وزارت کیا‘ بادشاہی کا مزہ آ رہا ہے‘‘۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے غبارِ خاطر میں لکھا ہے: بچپن سے ہی دل میں یہ چٹک سی لگ گئی تھی کہ فراغت ہو، کتاب ہو اور باغ کا کوئی پُرسکون کونا ہو، پھر وہاں بیٹھے گھنٹوں مطالعہ کرتا رہوں۔ لیکن ہم آج جس اطلاعاتی سماج میں زندگی گزار رہے ہیں، زندگی اور سماج کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متاثر نہ ہوا ہو۔ گھر اور دفتر‘ تجارت اور جنگ‘ علم اور اخلاق‘ آج ہر شعبہ اس نئی ٹیکنالوجی کی عملداری میں ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فون کا اشتراک ہمارے عہد کا ایسا کرشمہ ہے جس نے سب کی آنکھیں خیرہ کر رکھی ہیں۔ لہٰذا اس ڈیجیٹل اور پُرآشوب دور میں بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا ایک دشوار کن اور جاں گسل کام بن گیا ہے۔ حالانکہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے اور اس مرض کے سدباب کے لیے ماہرین نفسیات بچوں کے لیے مطالعے کو لازمی قرار دے رہے ہیں کیونکہ اچھی اور معیاری کتابیں شعور کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سی فضول اور لایعنی مشغولیات سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔
اگرچہ انٹرنیٹ کی بدولت ای لرننگ یا ای ایجوکیشن کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، مگر نوجوان ان سہولتوں کا فائدہ اٹھانے کے بجائے انٹرنیٹ کے دیگر فضول استعمالات میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے پاس کتاب پڑھنے کا وقت نہیں لیکن پورا دن سوشل میڈیا پر بیٹھ کر قیمتی وقت ضائع کرنا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے حالانکہ کتاب سے تعلق علم سے محبت کی علامت ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، جو قومیں کتاب سے رشتہ توڑ لیتی ہیں وہ دنیا کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچی ہیں، جن کا تعلق کتاب سے مضبوط رہا ہے۔ قوموں کی زندگی کا عمل کتاب سے جڑا ہوا ہے۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رک جاتا ہے۔ فرانس کے انقلابی دانشور والٹیئر نے کہا تھا ’’تاریخ انسانی میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کر کتابوں ہی نے لوگوں پر حکومت کی ہے، جس قوم کی قیادت اپنے عوام کو کتابیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھا دیتی ہے وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے‘‘۔ مگر حیف صد حیف ہماری نوجوان نسل کے پاس قیمتی سے قیمتی موبائل، لیپ ٹاپ، اور بائیک تو نظر آ جاتے ہیں مگر شاید و باید کسی کے ہاتھ میں کوئی کتاب نظر آ جائے۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ آج معاشرے میں کتب بینی کے رجحان میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ ہی ہے کیونکہ کتب بینی کی جگہ اب انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔ طالبعلم کمپیوٹر پر یونیورسٹی کی اسائنمنٹس بناتے ہیں اور پھر ای میلز یا دیگر انٹرنیٹ ذرائع سے ایک دوسرے کو ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے پہنچا دیتے ہیں۔ یوں طلبہ کا اساتذہ سے رابطہ بھی رہتا ہے مگر یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ آج کل کا طالبعلم صرف کورس کی کتابوں تک ہی محدود ہے۔ نیز طالبعلم انٹرنیٹ پر چیٹنگ اور سماجی روابط کی ویب سائٹس میں ہی اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک طالبعلم سکول اور اس کے بعد کے اوقات ملا کے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، خود کو انٹرٹین کرنے، وڈیو سٹریمنگ، میوزک سننے اور گیمز کھیلنے کے حوالے سے پورے دن میں لگ بھگ 9 گھنٹے سکرین کے سامنے گزارتا ہے جبکہ 8 سے 12 سال کی عمر کے طلبہ 6 گھنٹے سکرین کے سامنے گزارتے ہیں۔ اب24 گھنٹوں میں اتنے گھنٹے آنکھوں کے سامنے سکرین رہے گی تو مطالعہ کا کس کا دل چاہے گا؟
جوں جوں جدید ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں شامل ہو رہی ہے، کتاب کہیں دور فضا میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ ترقی کرنا ہر دور کا تقاضا ہے۔ ہماری نسل نو کو بھی نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنا چاہیے لیکن کتب بینی اور مطالعے جیسی کسی خوبصورت عادت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ بچوں میں مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنے میں والدین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، جونہی بچہ سن شعور کو پہنچے، سیکھنے، پڑھنے اور سمجھنے لگے تو والدین کو چاہئے کہ اسے اچھی اور مفید کتابیں لا کر دیں۔ فارغ اوقات میں ٹی وی دیکھنے یا سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کے بجائے وہ خود کتابوں کی ورق گردانی کریں، اور اپنے بچوں کو یہ باور کرائیں کہ فارغ اوقات میں کتاب کا مطالعہ ہی بہترین عمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے‘‘ اس لیے اپنے بچوں کو وقتاً فوقتاً لائبریری کی بھی سیر کرایا کریں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ اس ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا پر اپنی عمر کے ساتھ ساتھ اپنا قیمتی وقت بھی یونہی نہ گنوائے تو خدارا اسے مطالعہ کی عادت ڈلوائیں۔
(بشکریہ: تعمیر نیوز ممبئی)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)