ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

چین‘ امریکہ سرد جنگ کی حقیقت

تحریر: ڈیوڈ بروکس

میرے خیال میں ہم ایک نئی سرد جنگ کے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کے لیڈر چین کے خلاف سخت گیر موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ تائیوان کے مسئلے پر ممکنہ جنگ کا بھی خدشہ ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ پُرعزم ہیں کہ یہ صدی چین کی صدی ہو گی۔ میرے پاس حیران ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ سرد جنگ کیا شکل اختیار کرے گی‘ کیا پچھلی سرد جنگ کی طرح یہ بھی امریکی سوسائٹی کو تبدیل کر سکے گی؟ اس سرد جنگ کے حوالے سے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے وہ یہ کہ اس نے اسلحے اور معیشت کی دوڑ سے ہوا نکال دی ہے۔ اس کشیدگی میں اب تک سب سے زیادہ فوکس مائیکرو چپس پر رہا ہے جو امریکہ کی کار اور فون انڈسٹری کو چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے لیکن یہ میزائل کو بھی گائیڈ کرتی ہے جبکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹم کو ٹریننگ دینے کیلئے بھی یہ ضروری ہے۔ مستقبل میں جسے مائیکرو چپس کی مینو فیکچرنگ پر بالادستی حاصل ہو گی ‘ وہی مارکیٹ اور میدانِ جنگ میں غالب رہے گا۔

دوم یہ کہ اب جیو پالیٹکس یکسر مختلف ہو گئی ہے۔ جیسا کہ کرس ملر نے اپنی کتاب ’’چپ وار‘‘ میں لکھا ہے کہ مائیکرو چپ کے شعبے پر چند انتہائی کامیاب بزنسز کی بالا دستی قائم ہے۔ نوے فیصد سے زائد جدید ترین مائیکرو چپس تائیوان کی ایک کمپنی بنا رہی ہے۔ ہالینڈ کی ایک کمپنی تمام لیتھو گرافی مشینیں بنا رہی ہے جو انتہائی جدید معیار کی چپس بنانے میں استعمال ہو رہی ہیں۔ سانٹا کلارا کیلیفورنیا کی دو کمپنیوں کی گرافک پروسیسنگ یونٹس ڈیزائن کرنے پر اجارہ داری ہے جو ڈیٹا سنٹرز میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ایپلیکیشنز چلانے کیلئے انتہائی ضروری ہیں۔ یہ چوک پوائنٹس چین کیلئے ناقابلِ برداشت صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر مغرب چین کی انتہائی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کا راستہ بلاک کر سکتا ہے تو یہ چین کا راستہ بھی روک سکتا ہے؛ چنانچہ چین کی کوشش ہے کہ وہ چپس کی مینوفیکچرنگ میں خود کفالت کا مرحلہ طے کر لے۔ امریکہ کی نیت یہ ہے کہ وہ چپس کی موجودہ استعداد کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ خودکفیل ہو جائے اور چپس کا ایک ایسا عالمی اتحاد قائم کرے جس میں چین شامل نہ ہو۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں انہی خطوط پر بڑی تیزی سے رد و بدل کیا جا رہا ہے۔ دو سابقہ حکومتوں کے ادوار میں امریکہ نے انتہائی جارحانہ انداز میں وہ سافٹ ویئر ٹیکنالوجی اور آلات حاصل کرنے کا چین کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے جن کی اسے جدید چپس بنانے کیلئے لازمی ضرورت ہے۔ جوبائیڈن حکومت نہ صرف چین کی ملٹری کمپنیوں بلکہ تمام چینی کمپنیوں پر پابندی لگا چکی ہے۔ 

میں یہ دیکھ کر اور بھی حیران ہوں کہ یہ سرد جنگ داخلی سیاست کو کس طرح ایک نئے قالب میں ڈھال رہی ہے۔ اگر 1791ء میں الیگزینڈر ہیملٹن کی رپورٹ آن مینوفیکچرز کا سہارا لیا جائے تو ہمیشہ ایسے امریکی موجود رہے ہیں جو صنعتی پالیسی کو سپورٹ کرتے رہے اور اس مقصد کے لیے حکومت کو استعمال کرکے نجی معاشی شعبے کو مضبوط کرتے رہے۔ مگر گورننگ کی یہ اپروچ محض ایک حد تک ہی استعمال ہوتی ہے۔ جب بات گرین ٹیکنالوجی اور چپس کی ہو تو اسے امریکی سیاست میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ گزشتہ سال کانگرس نے چپس ایکٹ کو پاس کیا تھا اور گرانٹس، ٹیکس کریڈٹس اور دیگر سبسڈیز کے لیے باون ارب ڈالرز رکھے گئے تھے تاکہ امریکی چپس کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

آنے والے برسوں اور عشروں کے دوران چین خود اپنے صنعتی پالیسی پروگرامز میں بھاری رقوم کی سرمایہ کاری کرنے والا ہے جس میں جدید ٹیکنالوجیز کی وسیع رینج شامل ہے۔ سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایک تجزیہ کار کے تخمینے کے مطابق چین پہلے ہی امریکہ کے مقابلے میں اپنی جی ڈی پی کے تناسب سے بارہ گنا زیادہ وسائل اپنے صنعتی پروگرامز پر خرچ کر رہا ہے۔ آنے والے برسوں میں امریکی رہنمائوں کو یہ تجزیہ کرنا پڑے گا کہ ان کی یہ سرمایہ کاری کس قدر مؤثر ہے اور اس پر کیسا ردِعمل ظاہر کرنا ہے۔ یہاں تک کہ پچھلی سرد جنگ کے مقابلے میں اس سرد جنگ کا آغاز ٹیکنالوجی کی اشرافیہ کرے گی۔ غالباً دونوں ممالک اپنے مالی وسائل کا ایک بھاری حصہ اپنے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شہریوں پر خرچ کرنے والے ہیں جو غصے اور اشتعال انگیز ی کے دورمیں انتہائی خطرناک صور تحال ہے۔ آپ پہلے ہی سیاسی دراڑوں کا ایک نیا سلسلہ دیکھنا شروع کر دیں گے۔ اس سنٹر میں آپ کو نیو ہیملٹونین افراد بھی مل جائیں گے جنہوںنے چپ ایکٹ کو سپورٹ کیا تھا۔ ان میں بائیڈن حکومت اور سترہ ٹرمپ مخالف ریپبلکنز بھی شامل ہیں جنہوںنے ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر سینیٹ میں چپ ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ دائیں بازو میں ایسی مقبول سیاسی شخصیات شامل ہیں جو چین کے معاملے میں انتہائی سخت گیر اندازِ فکر کی حامل ہیں خاص طور پر اس وقت جب کوئی معاملہ ملٹری سے متعلق ہو مگر وہ صنعتی پالیسی پر یقین نہیں رکھتیں۔ ہمیں اتنی بھاری رقم صرف اشرافیہ پر ہی کیوں خرچ کرنی چاہئے؟ آپ کس بنا پر سمجھتے ہیں کہ حکومت مارکیٹ کے مقابلے میں زیادہ سمار ٹ اور چالاک ہے؟ بائیں بازو میں وہ عناصر ہیں جو صنعتی پالیسی کو اپنے ترقی پسندانہ اہداف کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بائیڈن حکومت نے ان کمپنیوں کیلئے کئی احکامات جاری کر رکھے ہیں جنہیں چپس ایکٹ کی سپورٹ دستیاب ہے۔ یہ تمام احکامات بزنسز کو مجبور کر دیں گے کہ وہ ایک ایسا طرزِ عمل اپنائیں جس کے ذریعے بہت سی ترقی پسندانہ ترجیحات کا تعین ہو سکے، مثلاً چائلڈ کیئر پالیسی، یونین سازی میں اضافہ، ماحولیاتی اہداف، نسلی عدل و انصاف وغیرہ۔ بجائے اس کے کہ پورے پروگرا م کا مقصد صرف چپس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہو، ہر چیز فوری اور بیک وقت ہونی چاہئے۔ہم امید رکھتے ہیں کہ جوں جوں سرد جنگ کی شدت میں اضافہ ہو گا ہماری سیاست میں بھی زیادہ سنجیدگی کا عنصر بڑھتا جائے گا۔ جب پچھلی سرد جنگ کے دوران امریکی شہری الیکشن میں ووٹ ڈالنے گئے تھے تو انہیں یہ احساس ہوا کہ ان کا یہ ووٹ ان کیلئے زندگی او رمو ت کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ اس سے ملتا جلتا احساس دوبارہ بھی جنم لے سکتا ہے۔ اس عہد میں حکومت چلانے کیلئے ہمیں تجربہ کار سیاست کا ایک غیرمعمولی معیاردرکار ہوگا تاکہ صنعتی پروگرامز کو چلایا جا سکے۔خاص طور پر تجارتی جنگیں شروع کیے بغیر معیشت کو ڈی گلوبلائز کیا جا سکے تاکہ چین کی تضحیک کیے بغیر اسے مقابلے سے آئوٹ کیا جا سکے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement