ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

طیب اردوان اور خواتین کی حمایت …(1)

تحریر: شفق تیمور

آج سے دس سال پہلے کی بات ہے جب ایمن کلیق کی ساری توجہ اپنے دو بچوں کو پالنے پر مرکوز تھی۔ وہ ایک مکمل گھریلو خاتون تھی اور استنبول میں رہتی تھی۔ ایک روز اچانک اسے خیال آیا کہ مجھے اپنے خاندان کو مالی طور پر سپورٹ کرنا چاہئے؛ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی گارمنٹس کمپنی شروع کرے گی۔ ان دنوں حکومت خواتین انٹر پرینیورز کی حوصلہ افزائی کے لیے سود کے بغیر قرضے دیتی تھی؛ چنانچہ ایمن نے بھی بلاسود قرضہ لے کر اپنا گارمنٹس کا بزنس شروع کیا اور آج کل اس کی کمپنی میں ساٹھ سے زائد لوگ ملازمت کرتے ہیں اور وہ پندرہ سے زائد ممالک کو اپنی گارمنٹس مصنوعات برآمد کرتی ہے۔ ایمن نے ایلیمنٹری سکول ایجوکیشن حاصل کی ہوئی ہے اور وہ اپنے اس فیصلے کا سارا کریڈٹ ایک زبردست موٹیویٹر کو دیتی ہے جس نے اسے اپنی زندگی بدلنے کے لیے تحریک دی اور اس موٹیویٹر کا نام رجب طیب اردوان ہے، جو ایک بار پھر ترکیہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ایمن کے نزدیک صدر اردوان خواتین کے لیے ایک ہیرو اور چیمپئن کا درجہ رکھتے ہیں۔

ایمن‘ جس کی عمر اڑتیس برس ہے‘ کا کہنا ہے کہ ’’میں اپنے صدر کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے مجھے اپنی کمپنی کا باس بنا دیا‘‘۔ اس نے بتایا کہ میں کئی سال سے رجب طیب اردوان کو ہی ووٹ دے رہی ہوں اور گزشتہ اتوار کو ہونے والے الیکشن میں بھی میں نے ایک بار پھر اگلی مدت کے لیے صدر منتخب کرنے کے لیے انہیں ہی اپنا ووٹ دیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے طیب اردوان ترکیہ کے سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں اور ایک بار پھر اپنے سیاسی حریفوں کو پچھاڑنے کے لیے رجب طیب اردوان نے ترکیہ کے ان ووٹرز کی حمایت کا سہارا لیا ہے جنہیں وہاں کی انتخابی سیاست میں زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور وہ ہیں ترکیہ کی قدامت پسند مذہبی خواتین ووٹرز۔ پورے ملک میں دین دار خواتین‘ جن میں پروفیشنلز اور ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو عموماً اپنے گھروں سے باہر جا کر کام نہیں کرتیں‘ نہ صرف یہ کہ وہ بڑی تعداد میں رجب طیب اردوان کے حق میں ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نکلیں بلکہ انہوں نے اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب کو بھی انہیں ووٹ دینے کے لیے قائل کیا۔

ترک خواتین ملک بھر میں طیب اردوان کی حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی متحرک کارکن ہیں ان میں وہ ایکٹوسٹس بھی شامل ہیں جو چائے کے کپ پر اپنی درجنوں ہمسایہ خواتین تک ان کی سیاسی جماعت کا پیغام پہنچاتی ہیں اور وہ بھی جو پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ خواتین اور صدر طیب اردوان ایک مشترکہ اسلامی نقطہ نظر رکھتے ہیں جو ترک سماج میں خواتین کے کردار کا تعین کرتا ہے، اول ایک ماں اور بیوی کے طور پر اور دوسرا ترک افرادی قوت کے ایک رکن کے طور پر۔

ایک کٹر سیکولر ملک میں‘ جہاں اپنے سر کو سکارف سے ڈھانپنے والی خواتین پر عرصۂ دراز تک یونیورسٹی کی تعلیم اور سرکاری ملازمت کے دروازے بند رہے ہیں، دین پر عملی پیرا خواتین صدر رجب طیب اردوان کو اپنا محافظ سمجھتی ہیں کیونکہ انہوں نے ہی ایسی خواتین کے لیے ملکی قوانین میں نرمی پیدا کی تھی۔ 

اوزلم زینگن نہ صرف پارلیمنٹ کی رکن ہیں بلکہ وہ طیب اردوان کی پارٹی کی ایک سینئر خاتون رکن بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ترکیہ میں ووٹ دے کر ہماری کمیونٹی محض کسی رکن پارلیمنٹ کا انتخاب ہی نہیں کرتی بلکہ یہ عمل اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مذہبی عقائد کے نام پر رائے عامہ کے ذریعے جس طرح بہت سی قدامت پسند خواتین کے عزم و استقامت کو محدود کر دیا جاتا ہے اس کی تلخی بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے بلکہ یہ ان بچوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے جنہیں اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ غم وغصہ بھی صدر طیب اردوان کو خراجِ تحسین کا باعث بنتا ہے۔ اوزلم زینگن کہتی ہیں کہ ’’طیب اردوان کو ا س لیے اتنا پیار اور احترام ملتا ہے کیونکہ انہوں نے ترک خواتین کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں‘‘۔ 

28 مئی کو رن آف الیکشن سے دو روز پہلے استنبول کے ایک کانفرنس ہال میں ایک خواتین ریلی کے دوران صدر طیب اردوان کے لیے ان کی خواتین سپورٹرز کی حمایت اور جوش و خروش کے مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ پورا ہال خواتین سے بھرا ہوا تھا بہت سی تو اپنے بچوں کو اٹھائے ہوئے تھیں۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ ملی ترانوں پر وہ بازو ہلا کر ساتھ دے رہی تھیں۔ جب طیب اردوان کو سٹیج پر خوش آمدید کہا گیا تو کیمروں کی چکاچوند اور سیل فونز کا ایک سیلاب تھا۔ نعروں کے شور اور ہنگامہ خیزی میں صدر طیب اردوان کہہ رہے تھے کہ ’’ملک کی خدمت گزاری کی جدوجہد میں ہماری خواتین کا سب سے اہم کردار ہے‘‘۔ انہوں نے اپنے سامعین کو یاددہانی کرائی کہ انہوں نے قدامت پسند عوامل پر دلیرانہ فیصلے کیے ہیں۔ میں نے سر پر سکارف پہننے پرعائد پابندی ختم کرائی، میں نے ترکی کے فن تعمیر کی یاد گار آیا صوفیہ کو ایک میوزیم سے مسجد میں تبدیل کر دیا۔ جب انہوں نے اپنا یہ نیا وعدہ دہرایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جو خواتین گھر سے باہر کام نہیں کرنے جاتیں‘ ان کو بھی ریٹائرمنٹ پینشن دی جائے تو پورا ہال تالیوں سے گونجنے لگا۔ انہوں نے کانفرنس ہال میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم الیکشن کے روز بیلٹ بکس بھر دیں گے۔ آپ صرف خود ہی الیکشن بوتھ پر نہیں جائیں گی‘ آ پ کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ آپ کے دیگر فیملی ممبرز، ہمسائے اور دور کے رشتے دار بھی بیلٹ باکس تک پہنچیں‘‘۔ ہال میں موجود ہجوم نعرے لگا رہا تھا کہ ’’خواتین آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔

صدر اردوان کے قدامت پسند اور وفادار پیروکاروں کی جڑیں ترک تاریخ میں پیوست ہیں۔ اگرچہ ترکیہ ایک غالب مسلم سماج ہے مگر 1923ء میں ملک کی بنیاد ایک سیکولر ریاست کے طور پر رکھی گئی تھی؛ چنانچہ حکومت کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ مذہبی اداروں کی نگرانی کر سکے جبکہ ملکی آئین کے مطابق لوگوں کے مذہبی معاملات سرکاری دسترس سے باہر سمجھے جاتے ہیں۔ کئی ترک دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولرزم جمہوریہ ترکیہ کا بنیادی ستون ہے؛ تاہم ترک خواتین کی ایک بڑی تعداد اس بات کو ناپسند کرتی ہے جن میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو یہ محسوس کرتی ہیں کہ سیکولر ازم میں ہمیں دوسرے درجے کے شہری بنا دیا گیا ہے۔ بہت سی خواتین کو یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے حجاب کو خیرباد کہنا پڑا۔ کئی ایک کو سر پر وگ پہننا پڑی۔ رکن پارلیمنٹ اوزلم زینگن کہتی ہیں کہ میں نے بیس سال تک بطور وکیل کام کیا ہے مگر مجھے کورٹ روم داخلے کی اجاز ت اس لیے نہیں تھی کہ میں اپنا سر ڈھانپ کر رکھتی تھی۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement