جنگلی آتشزدگی اور بچوں کے امراض
تحریر: الیگزینڈر رابن
جون کے اوائل میں جب کینیڈا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کا دھواں وسطی اور مشرقی امریکہ میں پھیلنے لگا تو بچے اور والدین مشی گن میں برنز پارک میں سکول کے آخری ہفتے کی پکنک منانے کے لیے جمع تھے۔ شینن ہاٹامیکی اپنے پانچ سالہ بیٹے آئن کی پکنک سرگرمیوں کو منسوخ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ مگر آئن کو دمے کا شدید عارضہ لاحق تھا اور خدشہ تھا کہ دھویں سے اس کی تکلیف میں اضافہ ہو گا۔ چنانچہ پکنک کے خاتمے کے بعد آئن کی ماں نے اسے گھر سے باہر نہیں جانے دیا۔ اسے نیبولائزر کے علاوہ باقاعدہ ادویات دی گئیں۔ آسمان صاف ہونے تک ایئر پیوریفائر بھی پوری رفتار سے چلایا گیا۔ بچوں کے نظام تنفس کے ماہر کے طور پر پچھلے ہفتے جب جنگلات میں آتشزدگی سے پھیلنے والے دھویں نے امریکہ کے کئی حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو ہماری ساری توجہ آئن اور اس کے ہم عمر بچوں پر مرکوز تھی کیونکہ ان کے پھیپھڑوں کو دھویں سے نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ تھا۔ ہمیں دمے کے شکار لاکھوں امریکی بچوں کی فکر تھی جنہیں مخصوص ادویات تک رسائی حاصل نہیں تھی اور سانس لینے کے لیے صاف ہوا بھی میسر نہیں تھی۔ آتشزدگی سے پھیلنے والے دھویں سے نئے پیدا ہونے والے بچوں کی زندگیوں کو سنگین خطرات درپیش تھے۔ یوں ماحولیاتی آلودگی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان بچوں کے لیے سخت مضر تھی۔
اگرچہ بچوں کی صحت اور زندگیوں کے لیے دیگر کئی خطرات بھی درپیش ہیں جن میں اسلحہ، منشیات کی عادت اور موٹاپا شامل ہیں؛ تاہم معدنی ایندھن اور ماحولیاتی آلودگی سے بچنا محال ہے اور یہ بچوں کی نشوونما کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال جنگلات کی وہ آتشزدگی ہے جو شدید گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے ہوئی اور جوں جوں کرۂ ارض گرم ہو رہا ہے‘ صورتحال بدترین شکل اختیار کر رہی ہے کیونکہ ہوا میں زہریلے ذرات اور مواد کا بڑی مقدار میں اخراج ہو رہا ہے۔ جنگلات کی آگ سے پید اہونے والا دھواں کیمپ فائر سے کہیں زیادہ صحت کیلئے مضر ہے۔ ایک سٹڈی کے مطابق جنگلی آگ کا دھواں عام ماحولیاتی آلودگی یا گاڑیوں کے دھویں کے مقابلے میں بچوں کے نظام تنفس کیلئے دس گنا زیادہ نقصان دہ ہے۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران جب دھویں نے نیویارک شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا تو ایمرجنسی روم دمے کے مریضوں سے بھرگئے تھے۔ سیاہ فام اور لاطینی نسل کے بچے جو ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں‘ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بچے جتنے کم عمر ہوتے ہیں ان کی دھویں سے متاثر ہوکر ہسپتال میں داخل ہونے کی شرح اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارے پھیپھڑے پوری طرح میچور ہونے میں بیس سال لیتے ہیں۔ زندگی کے پہلے چند برسوں میں یہ تیزی سے نشوونما پاتے ہیں۔ بچے اپنے سائز کے حساب سے بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتاری سے سانس لیتے ہیں اور بڑوں کی نسبت باہر کی طرف زیادہ پھیلتے ہیں اور یوں زیادہ مقدار میں آلودہ ہوا اندر کی طرف کھینچتے ہیں۔
جو ڈاکٹرز بھی کیلیفورنیا میں پریکٹس کر رہے ہیں‘ انہیں ان دنوں کا تجربہ ہوتا ہے جب دھویں کے سیاہ مرغولے بھاری مقدار میں فضا میں موجود ہوتے ہیں اور نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹس ایسے مرغولوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے‘ جن کے پھیپھڑوں کا سائز ایک اخروٹ کے برابر ہوتا ہے‘ اسی زہریلے ماحول میں سانس لینے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ہسپتال کا ایئر فلٹریشن سسٹم کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ یہ خطرات بچے کی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہو جاتے ہیں اور پھپھڑوں کے علاوہ دیگر اعضا کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ دھویں میں سانس لینے والی مائوں میں قبل از وقت بچوں کی پیدائش اور کم وزن کے بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ فضائی آلودگی کے اثرات زیادہ تر بچوں کے دماغ اور جگر پر نظر آتے ہیں۔ آسٹریلیا کے ڈاکٹروں نے 2019-20ء کے دوران سیاہی مائل انول کا مشاہدہ کیا تھا۔ دھویں کے زہریلے ذرات کی طرح جو ہماری کھڑکیوں اور دروازوں کے ذریعے ہمارے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں، معدنی ایندھن اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچنا بھی محال ہوتا ہے اور ہمار ے ہر بچے کی زندگی خطرات سے دوچار ہو جاتی ہے۔ یہ خطرات جنگلی دھویں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں‘ دیگر عوامل کے ساتھ مل کر یہ مزید خطرناک ہو جاتے ہیں اور آنے والے برسوں میں بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے بہت مضر ہو جاتے ہیں۔ انسانی بقا کے لیے ضروری باتیں‘ صاف ہوا، صاف پانی، غذائیت بخش خورا ک اور محفوظ گھر‘ یہ سب کچھ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
صرف پچھلے ہفتے کے دوران وہ تمام مقامات جنہیں سیاہ دھویں کا سامنا رہا‘ وہاں دھویں کے الرٹ جاری کر دیے گئے۔ سب سے زیادہ جنہیں اس دھویں سے خطرہ ہے وہ بچے ہیں انہیں پہلے ہی اپنے جسم کا باقاعدہ درجہ حرارت برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہمارے بچوں کو ماحولیاتی آلودگی سے جن خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے‘ ہم صحت عامہ کے معمولی اقدامات کے ذریعے ہی انہیں تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ ہوا کی کوالٹی کے بارے میں بہتر ڈیٹا سے والدین اپنے بچوں کو درپیش فوری خطرات سے باخبر ہو سکتے ہیں۔ ایئر کوالٹی کے زیادہ حساس مانیٹر نصب کرنے سے ہم ایک اچھا آغاز کر سکتے ہیں مگر وہ شاید کم متمول کمیونٹیز کو دستیاب نہ ہو سکیں اور نہ ہی وہ ان عمارتوں کی ایئر کوالٹی کے بارے میں رپورٹ کرتے ہیں جہاں بچے جمع ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سکول کی عمارتوں میں بھی حساس ایئر کوالٹی مانیٹرز لگانا اہم ضرورت ہے۔ ہمیں ان لوگوں کے لیے بھی اس امر کو یقینی بنانا ہوگا جنہیں انٹرنیٹ تک زیادہ رسائی نہیں ہے اس مقصد کے لیے کمیونٹی الرٹ سسٹم سکولو ں اور سمر کیمپس کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
سکولوں کو وفاق اور ریاست کی طرف سے عمارتوں کے اندر صاف ہوا کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہیٹنگ اور کولنگ سسٹم پر کافی ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ کیلیفورنیا کی ریاست اس سمت میں سبقت لے رہی ہے اور سکولوں کی جدید عمارتیں بنانے کے لیے قانون ساز ی کی پلاننگ کر رہی ہے۔ اس تمام تر ہنگامی تیار ی کا مقصد زیادہ سے زیادہ بچوں اور بڑوں کو دھویں کے مضر اثرات سے تحفظ فراہم کرنا ہونا چاہئے۔ ہمیں معدنی ایندھن کو جلانے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ یہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ جنگلات میں ہونے والی آتشزدگی گرمی کی لہر میں شدت کا باعث بن رہی ہے۔ ہمیں اس امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ ہمارے بچوں کے لیے ایک محفوظ اور صحت بخش مستقبل کی فراہمی ممکن ہے۔ بچوں میں خود کو ڈھالنے کی صفت پائی جاتی ہے مگر وہ ماحولیاتی آلودگی سے زیاد ہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ آگے بڑھیں اور ان کے لیے بہتر حالات پیدا کریں۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)