ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

بھارتی اراکینِ پارلیمان کے خلاف سنگین مقدمات

تحریر: سرسوتی داس گپتا

کیا آپ کو پتہ ہے کہ بھارت کے اراکینِ پارلیمنٹ میں ایسے بے شمار اراکین موجود ہیں جن کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں اور وہ مختلف سنگین الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ حال ہی میں Association for Democratic Reforms(ADR) کی جانب سے ایک رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ہے جس میںبھارت میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی 776نشستوں میں سے 763 نشستوں پر موجود اراکین کے داخل کردہ حلف ناموں کا جائزہ لیا گیا ہے اور اسی جائزہ کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ 40 فیصد اراکینِ پارلیمنٹ (لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اراکین) نے خود اپنے حلف ناموں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔ ان میں سے 25فیصد اراکین ایسے ہیں جن پر سنگین فوجداری الزامات کے تحت مقدمات چل رہے ہیں۔ ان الزامات میں قتل‘ اقدامِ قتل‘ اغوا اور خواتین کے خلاف جرائم شامل ہیں۔ آپ کو بتا دیں کہ ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز اور نیو الیکشن واچ نے یہ رپورٹ تیار کی ہے اور یہ رضا کارانہ تنظیمیں مجرمانہ ریکارڈ کے حامل یا فوجداری مقدمات کا سامنا کر رہے اراکینِ پارلیمنٹ پر کڑی نظر رکھتی ہیں اور بھارت میں مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کی جانب سے کی جانے والی انتخابی دھاندلیوں کو بے نقاب کرتی رہتی ہیں۔ مذکورہ رپورٹ‘ جس کا عنوان ’’لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے موجودہ اراکین کا جائزہ 2023ء‘‘ ہے‘ منگل 12ستمبر کو جاری کی گئی۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ لوک سبھا کے ایک رکن اور راجیہ سبھا کے تین اراکین کے حلف ناموں کا جائزہ نہیں لیا گیا کیونکہ وہ دستیاب نہیں ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 763اراکینِ لوک سبھا و راجیہ سبھا میں سے 306 (40 فیصد) نے اپنے حلف ناموں میں اس بات کو قبول کیا ہے کہ ان کے خلاف مختلف نوعیت اور مختلف دفعات کے تحت فوجداری مقدمات زیر سماعت ہیں۔ لکشا دیپ کے رکنِ پارلیمنٹ نے اپنے حلف نامے میں فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے کی بات کی ہے۔ کیرالا کے 29 اراکینِ پارلیمان میں سے 23 (79فیصد) نے اعتراف کیا کہ انہیں فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔ بہار کے 56 اراکینِ پارلیمان (اراکینِ لوک سبھا و راجیہ سبھا) میں سے 41 (73 فیصد)‘ مہاراشٹرا کے 65 ایم پیز میں سے 37 (57 فیصد)‘ تلنگانہ کے 24ایم پیز میں سے 13 (54 فیصد) اور دہلی کے 10میں سے پانچ اراکینِ پارلیمنٹ (50 فیصد) نے اپنے حلف ناموں میں اعتراف کیا ہے کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات زیر سماعت ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان اراکینِ پارلیمان میں سے 194 (25 فیصد) کے خلاف سنگین فوجداری مقدمات چل رہے ہیں جن میں اغوا‘ قتل‘ اقدامِ قتل اور خواتین کے خلاف جرائم وغیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یوپی کے 108اراکینِ پارلیمان میں سے 37 (34 فیصد) کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں۔ Association for Democratic Reforms کے جائزہ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ RJD یا راشٹریہ جنتا دل کے اراکینِ پارلیمنٹ کے خلاف سب سے زیادہ فوجداری مقدمات درج ہیں۔ اس کے چھ میں سے پانچ اراکین (83 فیصد) کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا نمبر آتا ہے جس کے آٹھ میں سے چھ اراکینِ پارلیمنٹ (75 فیصد) کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ کانگریس کے 81اراکینِ پارلیمان میں سے 43 (53 فیصد) اراکین کے خلاف فوجداری مقدمات چل رہے ہیں۔ وائی ایس سی آر پی کے 31اراکینِ پارلیمان میں سے 13 (42 فیصد)‘ ترنمول کانگریس کے 36میں 14 (39فیصد)‘ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے آٹھ میں سے دو (25 فیصد)‘ بی جے پی 385میں سے 139 (36 فیصد)‘ عام آدمی پارٹی کے 11میں سے تین اراکینِ پارلیمنٹ (24فیصد) کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں اور وہ مختلف عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ اور یہ ایسے الزامات ہیں اگر وہ ثابت ہو جاتے ہیں یا ملزم اراکینِ پارلیمان کو قصوروار قرار دیا جاتا ہے تب انہیں پانچ سال یا اس سے زائد کی سزا ہو سکتی ہے اور اگر جرم ناقابلِ ضمانت ہے یا کوئی انتخابی جرم (مثال کے طور پر رشوت کی پیشکش)‘ سرکاری خزانے کو نقصان سے متعلق جرم‘ ایسے جرائم جس کا قانونِ عوامی نمائندگی کی شق آٹھ میں حوالہ دیا گیا ہو‘ قانونِ انسداد بدعنوانی کا کوئی جرم ہو یا اگر خواتین کے خلاف کوئی جرم ہو تو قصوروار پائے جانے پر پانچ سال یا اس سے زائد کی سزا ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 11اراکینِ پارلیمان کے خلاف قتل‘ 32 ایم پیز کے خلاف اقدامِ قتل اور 21 اراکینِ پارلیمان پر خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ چار اراکینِ پارلیمان ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے حلف ناموں میں اعتراف کیا ہے کہ ان کے خلاف عصمت ریزی کے مقدمات بھی چل رہے ہیں۔

قتل اور اقدامِ قتل کے مقدمات میں ملوث اراکینِ پارلیمان کے حوالے سے اُترپردیش سرفہرست ہے۔ اُترپردیش وہ ریاست ہے جس کے تین اراکینِ پارلیمنٹ نے اپنے خلاف قتل کے مقدمات درج ہونے کا اعتراف کیا۔ اُترپردیش کے 9 اراکینِ پارلیمنٹ‘ مغربی بنگال کے آٹھ‘ بہار کے چار‘ مہاراشٹرا کے تین‘ مدھیہ پردیش اور اوڈیشہ کے دو دو‘ آندھرا پردیش‘ تلنگانہ‘ لکشادیپ اور تامل ناڈو کے ایک ایک ایم پی کے خلاف اقدامِ قتل کے مقدمات درج ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم کے معاملہ میں مغربی بنگال کے پانچ‘ کیرالا اور آندھرا پردیش کے تین تین‘ یوپی‘ مہاراشٹرا‘ تلنگانہ اور اڈیشہ کے دو دو‘ راجستھان اور تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے ایک ایک ایم پی کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے اس کے 7اراکینِ پارلیمنٹ کے خلاف قتل‘ 24 کے خلاف اقدامِ قتل‘ 10 کے خلاف خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ جن چار اراکینِ پارلیمان کے خلاف ریپ کے مقدمات درج ہیں ان میں کانگریس کے دو‘ بی جے پی اور وائی ایس آر سی پی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔

بشکریہ: سیاست انڈیا

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement