ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

دنیا کی آبادی میں سنگین اضافہ …(2)

تحریر: ڈین سپیئرز

اگر ہم اپنی سوسائٹیز میں ایسے عناصر اور عوامل کا انتظار کرنا شرو ع کر دیتے ہیں جن میں اجتماعی شمولیت کا فقدان ہو، ہمدردی کے کم جذبات پائے جاتے ہوں تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ آبادی میں کمی کے مسئلے کو ایک بحران سمجھنا شروع کر دیا جائے اور ہر کوئی سماجی ناہمواری، قوم پرستی، اخراج یا کنٹرول سمیت اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اس کا ناجائز استعمال کرنے لگے۔ اگر ہم اسی مرحلے پر اس مسئلے کی طرف توجہ دینا شروع کر دیں تو ہمیں ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنے کیلئے ایک بہتر موقع میسر آ جائے گا جو ہماری آزادی کا تحفظ کرنے، بوجھ کو شیئر کرنے، ایڈوانسڈ جینڈر مساوات کو فروغ دینے اور ان تباہیوںسے بچنے میں ہماری مدد کرے گا جن کا ہمیں اس وقت سامنا کرنا پڑتا ہے جب حکومت ری پروڈکشن کے عمل پر اپنی مرضی مسلط کرتی ہے۔ اگر شرح پیدا ئش خود بخود ہی دو بچوں سے کم ہو جاتی ہے تو ہمیں کسی قسم کی تشویش کی ضرور ت نہیں۔ شرح پیدائش خود ہی اپنی پہلی سطح پر نہیں آ جائے گی کیونکہ معیارِ زندگی کو بہتر بنانا، کیئر ورک کو شیئر کرنا یا سوشل انشورنس پروگرام کیلئے وسائل فراہم کرنا ایک آسان کام تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں ممکنہ متبادل سے شرح پیدائش پہلے ہی کم ہے۔ برازیل اور چلی میں ایسا بیس سال سے ہو رہا ہے۔ تھائی لینڈ میں تیس‘ کینیڈا، جرمنی اور جاپان میں پچھلے پچاس سال سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن ممالک میں شرح پیدائش دو بچوں سے کم ہو گئی تھی ان میں سے کسی بھی ملک میں یہ واپس پہلی سطح پر نہیں آئی۔ آبادی میں کمی کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک لوگ اپنے ارد گرد دیکھتے رہیں گے کہ چھوٹا خاندان ہمارے لیے بہترین آپشن ہے۔ 

صحرائے صحارا کے اردگرد کے ممالک میں‘ جہاں شرحِ پیدائش بلند ترین ہے‘ اب یہ اس لیے گر رہی ہے کیونکہ ان ممالک میں تعلیم اور معاشی مواقع مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔ اسرائیل ایک امیر ملک کی بہترین مثال ہے جہاں شرحِ پیدائش متبادل شرحِ پیدائش سے زیادہ ہے۔ مگر اب وہاں بھی کئی عشروں سے شرحِ پیدائش گر رہی ہے جو 1950ء میں 4.5 تھی، آج کم ہوکر 3 ہو گئی ہے جو اگلی کئی نسلوں تک 2.1 تک رہے گی۔ شرح پیدائش کم ہونے کی وجہ بڑی سادہ ہے۔ ما ضی کے لوگوں کے مقابلے میں آج لوگ چھوٹا خاندان چاہتے ہیں۔ رپورٹس اور سرویز میں تو لوگ یہی بتاتے ہیں۔ انسان ایک بہتر اور آزاد دنیا تعمیر کرنے میں مصروف ہیں جہاں خواتین سمیت سب کیلئے برابر مواقع میسر ہوں۔ یہ ترقی ہم سب کیلئے باعثِ مسرت ہے کیونکہ اس میں سب کی کوششیں شامل ہیں۔ اس ترقی کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک خاندان کو پروان چڑھانے کی خواہش ہمارے دیگر اہداف سے متصادم بھی ہو سکتی ہے جن میں کیریئر اور دوسروں کے ساتھ تعلقات بنانا اور انہیں نبھانا شامل ہے۔ابھی تک کوئی بھی سماج اس مسئلے کو حل نہیں کر سکا۔ ہر جگہ والدین برابر کے مواقع چاہتے ہیں۔ کچھ والدین کے نزدیک ان مواقع کا مطلب مسلسل جدوجہد ہے اور بعض کے نزدیک ان کا مفہوم اپنی امید سے چھوٹے سائز کا خاندان ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں شرحِ پیدائش کم ہے اور آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے، بچہ پیدا کرنے کی آزادی اسقاطِ حمل کے حق کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بچہ پیدا کرنے کے چوائس کو محدود کر کے بھی آبادی میں کمی لانے کے مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ کئی لوگ پہلے سے اس پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ کم شرحِ پیدائش ایسی کوئی وجہ نہیں ہے جس کی بنا پر ایک آزاد اور منصفانہ دنیاکی ترقی کو روکا جا سکتا ہو۔ اگر ہم ہیلتھ کیئر تک رسائی سے انکار کرکے یا والدین بننے یا نہ بننے کی آزادی نہ دے کر بچہ پیدا کرنے کے حق کو محدود کرنا چاہتے ہیں تو اس سے بہت سے لوگوں کو نقصان ہو گا اور اس وجہ سے یہ ایک غلط طریقہ بھی ہو گا خواہ اس سے آبادی کم ہو یا نہ ہو۔ اس سے آبادی کم بھی نہیں ہو گی۔ ہم یہ بات اس لیے بھی جانتے ہیں کیونکہ شرحِ پیدائش دو بچوں سے کم ہے خواہ کسی ملک میں اسقاطِ حمل کی آزادی ہو یا اس پر پابندی ہو۔

زندگی گزارنے یا ایک خاندان کو چلانے کیلئے کئی طریقے موجود ہیں اور اس بات کی آزادی یا تنوع ایک اچھی چیز ہے۔ اگر کسی دن آبادی میں کمی لانے کے حوالے سے ایک اجتماعی اور ہمدردانہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے تو ان اقدار کیساتھ تصادم کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اگر ہر چار امریکی جوڑوں میں سے ایک جوڑا بھی یہ چاہے کہ ہمارا ایک بچہ مزید ہونا چاہئے تو یہ امریکی آبادی میں استحکام پیدا کرنے کیلئے کافی ہو گا۔ ایسے مستقبل میں بھی زندگی گزارنے یا ایک خاندان کی تشکیل کرنے کے کئی طریقے موجود ہوں گے۔ اوسط دو بچے پیدا کرنے کا مطلب ہر فیملی کے دو بچے ہونا لازمی نہیں ہو گا؛ تاہم کوئی بھی یہ نہیںجانتا کہ دنیا کی آبادی کم کرنے کیلئے کیا کرنا ہو گا لیکن کچھ عرصہ پہلے تک ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ماحولیاتی تبدیلیوںسے کیسے نمٹنا ہے۔ ان اجتماعی چیلنجز میں بھی ہمارے لیے بہت سی باتیں مشترک ہیں جو انسانوں کو مستقبل کی تعمیر کے لیے ایک مشترکہ تجربہ فراہم کرتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرح فیملی سائز سے متعلق ہمارے فیصلوںکا نتیجہ ہمارے مشترکہ فائدے کی صورت ہی میں نکلے گا۔ جب لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہاں بچے نہ پیدا ہوں یا ان کے خاندان کا سائز چھوٹا ہو تو وہ کسی غلطی کے مرتکب نہیں ہو رہے ہوتے (اگرچہ ہم اُس وقت مشترکہ طور پر کسی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں جب ہم ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے بجائے لوگوںکے لیے بڑے سائز کے خاندان کی تشکیل مشکل بنا رہے ہوتے ہیں)۔ دنیا کی آبادی میں کمی یا بیشی کرنے کی طاقت کسی ایک ہاتھ میں نہیں ہے۔ نہ ہی آپ کے ہاتھ میں ہے نہ کسی ملک کے ہاتھ میں ہے اور نہ ہی ایک نسل کے اختیار میں ہے کہ آپ اپنی زندگی کے لیے کیا چاہتے ہیں۔ اور نہ یہ آپ کے اکیلے ہاتھ میں ہے کہ آپ اپنے حصے کا کاربن اخراج ختم کرکے دنیا سے کاربن کا اخراج ختم کر سکیں؛ تاہم ہمارے اپنے اقدامات ہی مل کر پوری انسانیت کے لیے مضمرات کا باعث بن جاتے ہیں۔

انسانی آبادی کو کم کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے ہم کوئی جلد بازی نہیں کر رہے۔ نیویارک ٹائمز نے ماحولیاتی تبدیلیوںکے خطرے کے حوالے سے 1956ء میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ ایک سائنسدان نے 1957ء میں کانگرس کے سامنے اس مسئلے کی سنگینی کی تصدیق کی تھی۔ وائٹ ہائوس نے 1965ء میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میںکاربن ڈائی آکسائیڈ کو آلودگی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا گیا تھا اور یہ وارننگ دی تھی کہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی صورت میں برف کے گلیشیرز پگھل جائیں گے جس کے نتیجے میں سمندری پانی کی سطح بلند ہو جائے گی۔ یہ سب کچھ آج سے چھ دہائیاں پہلے کیا گیا تھا۔ چھ دہائیوں کا مطلب ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب اقوام متحدہ دنیا کی آبادی میں اضافے کے حوالے سے ابھی توجہ دلا رہی تھی۔ اس مسئلے کا کوئی جلد بازی پر مبنی حل موجود نہیں ہے۔ انسانیت کی فوری ضرورت یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر ہمدردانہ انداز میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کرنی چاہئے کہ آبادی کے مسئلے سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے اور کس طرح ہر آنے والی نسل کی تخلیق کا بوجھ بانٹا جا سکتا ہے۔ اس ایشو پر بات کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس مسئلے پر توجہ دینا شروع کی جائے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں