ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

زلزلے کی تباہی کے مناظر …( 1)

تحریر: بین ہبرڈ

دکاندار بڑے شوق سے اپنی بیکری اور کیفے کو یاد کر رہا تھا جو ترکیہ کے قدیم شہر انطاکیہ میں واقع تھے۔ اس کا سٹاف بیکری میں بریڈ، کیک اور بسکٹس بنانے میں اس کی مدد کیا کرتا تھا جبکہ مقامی لوگ اپنا ناشتہ کرنے، کافی پینے اور آئس کریم کھانے کے لیے ہر صبح یہاں جمع ہو جاتے تھے۔ فروری میں یہ شہر اس وقت بالکل تباہ و برباد ہو گیا جب دو طاقتور زلزلے آئے تھے جن کی شدت نے جنوبی ترکیہ کو بری طرح ہلا دیا تھا۔ جن عمارتوں میںلوگ رہائش پذیر تھے ان کا نام و نشان تک مٹ گیا تھا۔ اب یہ پورا علاقہ ویرانی کا ایک دردناک منظر کا پیش کر رہا تھا۔

 تاہم اچھی بات یہ ہے کہ سات مہینے بعد اب بزنس دوبارہ شروع ہو گیا ہے مگر پہلے کے مقابلے میںبہت کم رونق ہے۔ بڑی شاہراہ پر ایک باکس سا پڑا ہے جو دیکھنے میں ایک شپنگ کنٹینر لگتا ہے۔ یہاںبیکر کینر آرس اور اس کے دو ساتھی اب چند ہی مصنوعات تیار کرتے ہیں اور ایک میز پر اپنے گاہکوںکو ڈیل کرتے ہیں۔ آرس نے مجھے بتایا کہ ان کا منصوبہ تب تک یہیں رہنے کا ہے جب تک ان کے آبائی قصبے میں زندگی کے پہلے جیسے آثار دوبارہ نہیں نظر آ جاتے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ’’اگر یہاں گرد و نواح میں لوگ پھر سے آباد ہونا شروع کر دیتے ہیں تو ہم بھی اپنی بیکری دوبارہ کھول لیں گے۔ ہم شہر چھوڑنے کے بارے میں بالکل نہیں سوچ رہے‘‘۔

آٹھ فروری کو آنے والے زلزلے میں جنوبی ترکیہ میں آباد پچاس ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہو گئے تھے اور گیارہ صوبوں میں ہزاروں عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں۔ ترک صدر طیب اردوان نے بے گھر ہونے والے شہریوںکو عنقریب دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد شہر کے مختلف متاثرہ مقامات پر تعمیراتی کام پورے زور و شور سے شروع ہو گیا۔ لیکن حال ہی میں انطاکیہ‘ جسے تاریخی طورپر اینٹی اوچ بھی کہا جاتا ہے اور جو زیادہ تر شہر ی علاقہ ہے اور اسی جگہ زلزلے نے شدید تباہی مچائی تھی‘ اس علاقے میں ایسے اشارے ملے ہیںکہ یہاں بڑے پیمانے پر جو تعمیراتی کام شروع کیا گیا تھا اب اس کا یہاں کوئی وجود نہیں ملتا۔ تباہ شدہ شہر کو ابھی تک مسمار کیا جا رہا ہے اور باسیوں کو اس حال تک پہنچا دیا گیا ہے کہ انہیں اپنا مستقبل بالکل تاریک نظر آ رہا ہے۔ پورے شہر میں ویران اپارٹمنٹس کھڑے ہیں جن میں سے دیواریں اور گلیاں غائب ہو چکی ہیں۔ مشینیں تباہ شدہ عمارتو ںکا ملبہ نکال کر کھدائی کر رہی ہیں، تباہ شدہ خطرناک عمارتوں کو گرایا جا رہا ہے جن کی وجہ سے گرد و غبار کے بادل آسمانوںکی بلندیوں کی طرف جا کر پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں اور لوگوںکے پھیپھڑوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ گرد و نواح میں واقع دیگر گھروں کے سب لو گ یہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ یہاں تباہ حال عمارتیں یا ملبہ اٹھانے والی مشینیں نظر آرہی تھیں جو سکریپ کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہیں۔

محمد آئسر‘ جس کی عمر اڑتالیس سال ہے اور وہ ایک بیروزگار بس ڈرائیور ہے‘ اپنے سادہ سے گھر کے باہر بیٹھا تھا جبکہ اس کی بیوی لکڑی جلا کر آ گ پر انڈے بنانے میں مصروف تھی۔ زلزلے نے اس کے قریب ترین علاقے میں بدترین تباہی مچائی تھی جو اب صرف ایک ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ جونہی سورج غروب ہوتا ہے ہر طرف تاریکی پھیل جاتی ہے۔ دور سے ایک اپارٹمنٹ کی لائٹ اس تاریکی کو چیرتی ہوئی ہم تک پہنچ رہی تھی۔ باقی ہر چیز کا نام و نشان مٹ گیا تھا۔ شہر میں زندگی کا ایک عارضی سا نظام بنایا گیا تھا۔ پورے پورے خاندان اپنے تباہ شدہ گھر کے باہر لگے خیموں میںسو رہے تھے۔ زیادہ تر گھر گندے دھاتی سٹرکچرز لگ رہے تھے جو ایک شپنگ کنٹینر سے بہت مشابہت رکھتے تھے جنہیں قطار در قطار ایک منزلہ گھروں میںتبدیل کر دیا گیا تھا اور حکومت یہاں بجلی اور پانی فراہم کرتی ہے۔ ان گھروں کے اردگرد اب دکانیں بھی دوبارہ کھل چکی ہیں مگر ان میں سے بھی زیادہ تر دکانیں کسی بڑی شاہراہ پر ایک قطار میں کھڑی کاریں لگتی ہیں۔ ان گھروں کے اندر ہی لوگ رو ز مرہ زندگی کے لوازمات پورے کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کہیںبالوںکی کٹائی ہو رہی تھی تو کہیں ڈرائیونگ کے حوالے سے لیکچر دیے جا رہے تھے۔ ہر طرح کی سروسز یہاں موجود ہیں۔ 

ایک دکان پر پالتو جانور اور ان کی خوراک سے متعلق اشیا فروخت ہو رہی تھیں۔ اس کے مالک سلمان انلار نے بتایا کہ زلزلے میں اس کا سارا گھر اور اس کی پالتو جانوروں سے متعلق دکان بری طرح تباہ ہو گئی تھی اس لیے اس کے اہل خانہ باہر ایک خیمے میں سو رہے تھے۔ اب وہ زیادہ تر پرندے فروخت کرکے گزارہ کر رہا تھا۔ جتنے خاندان بھی اس زلزلے کی تباہی میں اپنے گھروں اور ہر چیز سے محروم ہو گئے ہیں ان کے لیے زندہ رہنے کے لیے یہی ایک آسان طریقہ رہ گیا تھا۔ مسٹر انلار کا کہنا تھا کہ اس پریشانی اور دبائو کے ماحول میں یہی ایک بہترین آپشن ہے۔ ایسی عارضی رہائش گاہیںانطاکیہ کے لیے ایک بڑی تبدیلی ہوں گی کیونکہ یہ شہر ہزاروں برس کی تاریخ کا حامل ہے جہاں قائم چرچ اور مساجد ایک متنوع ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔

ایک کماندار بازار میں گاہک مقامی سطح پر تیار کردہ پنیر اور مٹھائیاں خرید رہے تھے اور یہاں پتھر سے تعمیر کیے ہوئے گھروںکی دیواروں پر پھول دار بیل دیوار کے ساتھ ساتھ اوپر تک جاتی ہے۔ یہاں کے مکینوں نے درجنوں انٹرویو دیے ہیں جن میں انہوں نے اپنے جان و مال کے ہونے والے نقصان کے دکھڑے سنائے ہیں اور اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ اس کے بدلے میں حکومت ہمارے لیے جو بھی امدادی اقدامات کرے گی اس میں خیر سگالی کے جذبے کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

ایہان کارا ایک ایسی تنظیم کے بانی ہیں جو محض اس لیے بنائی گئی ہے کہ شہر کی تعمیر و ترقی میں مقامی باسیوںکی مرضی اور منشا کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ اس سلسلے میں ایہان کارا کہتے ہیںکہ ’’ہمارے جذبے اور عزم جس طرح یہ زلزلہ آنے سے پہلے پُرجوش اور جواں تھے ہم دوبارہ کبھی اس جوش و خروش سے سرشار نہیں ہو سکتے۔ اب ہمیں بہرصورت حالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینا پڑے گا۔ ہمیںاس امر کا پورا ادراک ہے کہ زلزلہ آنے کے بعد بہت سی چیزیں تبدیل ہو جائیں گی مگر ہم اس پہلو پر پوری شدت سے زور دے رہے ہیں کہ اس شہرکے جوش و خروش اور جذبے کی روح کو برقرار رکھا جائے‘‘۔

ترکیہ میں اس زلزلے کے بعد متاثرہ افراد کی بحالی کا سلسلہ بڑی حد تک سست ہے جہاں ایک مستحکم حکومت قائم ہے اور اس کی معیشت کا شمار دنیا کی سب سے بڑی بیس معیشتوں میں ہوتا ہے۔ مگر اس نے دنیاکے دیگر حصوں میں آنے والی قدرتی آفات کے موقع پر کافی سردمہر ی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مراکش کو دیکھ لیں جہاں پہاڑیوں پر بسنے والے لوگوں کو ایک تباہ کن زلزلے کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ ان لوگوں کو عرصے سے مرکزی حکومت نے نظر انداز کر رکھا تھا۔ (جاری) 

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں