اسرائیل اپنی حکمتِ عملی میں کامیاب رہا؟
تحریر: ایرک شمٹ
اسرائیل کی طرف سے غزہ کے سب سے بڑے میڈیکل کمپلیکس الشفا ہسپتال کا محاصرہ اس کی زمینی جنگ کی حکمت عملی کا حصہ تھا تاکہ حماس کا خاتمہ اور اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرایا جا سکے۔ یہ حکمت عملی پچھلے ماہ اس وقت سامنے آئی تھی جب چالیس ہزار اسرائیلی فوجیوں نے غزہ شہر کا محاصرہ کر لیا تھا جہاں مبینہ طور پر الشفا ہسپتال کے نیچے حماس کا کمانڈ سنٹر قائم ہے۔ ان فوجیوں نے پھر سرنگوں کے نیٹ ورک پر حملہ کر دیا جہاںحماس کے مزاحمت کاروں کو چھپنے اورکارروائی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اسرائیل کایہ بھی کہنا تھا کہ غزہ شہر کے وسط میں حملہ کرنے سے حماس پر دبائو پڑے گا تو وہ یہودی یرغمالیوں کی رہائی پر آمادہ ہو جائے گی۔ اسرا ئیل مسلسل یہ الزام لگا رہا ہے کہ حماس گنجان آبادی میں سویلینز کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ نیز یہ کہ حماس کے جنگجوئوں نے گھروں کے نزدیک سکولوں، ہسپتالوں اور مساجد میں پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔ الشفا ہسپتال اس لیے زیادہ نشانہ بنا کیونکہ بقول اسرائیل‘ حماس اس کے نیچے قائم مبینہ سرنگ نیٹ ور ک کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کیا اسرائیلی حکمت عملی کارگر ثابت ہو رہی ہے یا نہیں۔ امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ہمیں اسرائیلی حکام نے بتایا ہے کہ اسرائیل جنوبی غزہ کی طرف حملہ کرنے سے پہلے شمالی غزہ میں آپریشن کلین اَپ مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہیگری نے کہا ہے کہ حماس جنوبی علاقوں سمیت جہاں بھی موجود ہے اس کے خلاف اسرائیلی حملہ جار ی رہے گا۔ اگرچہ اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے ایک وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اسرائیل نے سرنگوں کے خلاف اپنی کارروائی کی رفتار تیز کر دی ہے اور حماس نے شمال میں اپنا کنٹرول کھو دیا ہے اور اب اس کے جنگجو جنوب کی طر ف فرار ہو رہے ہیں۔ عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گیلنٹ کے بیان نے نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اگر حماس کے جنگجو جنوب کی طرف جا کر سویلین آبادی میں چھپ جاتے ہیں تو ان کا خاتمہ کیسے کیا جائے گا؟ اسرائیل جو سات اکتوبر کے حملوں میں بارہ سو سے زائد جانیں گنوا چکا ہے‘ غزہ میں سویلینز شہادتوں کے بعد جنگ بندی کے لیے عالمی دبائو کو کیسے برداشت کر پائے گا؟ خاص طور پر الشفا ہسپتال پر فوجی حملوںکا کیا بنے گا؟ غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اب تک اسرائیل چودہ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو موت کی وادی میں دھکیل چکا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ شہریوں کی بڑی تعداد میں نشانہ بننے کی وجہ حماس کا اپنے کمانڈ سنٹرز رہائشی آبادیوں اور الشفا ہسپتال جیسے علاقوں میں قائم کرنا ہے؛ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام کی طرف سے انکلیو پر زمینی حملہ کرنے کے فیصلے میں جلد بازی کی وجہ سے اسرائیلی کمانڈرز کو یہ پلاننگ کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں مل سکا کہ سویلینز کی اموات کا رسک کم سے کم کیا جا سکے۔
الشفا ہسپتال خاص طور پر اس کا نشانہ بنا۔ بڑھتے ہوئے عالمی دبائو کے پیش نظر اسرائیل کی پوری کوشش تھی کہ یہ دکھایا جائے کہ یہ ہسپتال فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ اسرائیلی فوج نے اتوا رکو ایک وڈیو جاری کی جس میں دکھایا گیا کہ 55 میٹر لمبی سرنگ کا دس میٹر حصہ ہسپتال کے نیچے سے گزر رہا تھا۔ فوج نے دو وڈیوز جاری کی ہیں جن میں سے ایک کو ڈرون کی مدد سے بنایا گیا تھا اس میں ایک دھاتی سیڑھی بھی نظر آ رہی تھی۔ اسی طرح ایک وڈیو‘ جو کسی ربوٹ سے بنائی گئی ہے‘ وہ زمین کے اوپر سے شروع ہو کر زیر زمین جا رہی ہے جس میں سرنگ کے ساتھ ساتھ بجلی کی تاریں بھی نظر آ رہی تھیں۔ اس سے آگے ایک بلاسٹ پروف دروازہ تھا۔ اسرائیل کی وزارتِ دفاع کے مطابق جنگ کے آغاز میں حما س کے کمانڈرز شاید الشفا کے نیچے مقیم ہوں اب وہ تمام جنوبی غزہ کی طرف چلے گئے ہیں۔ آنے والے ہفتوں میں اسرائیل کو یہاں سے سویلینز کو نکال کر حماس پر حملہ کرنا ہو گا۔ ترجمان کے مطابق: جب عالمی برادری کا اسرائیل کے بارے میں صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا تو معاملہ زیادہ پیچیدہ شکل اختیار کر لے گا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فار ہیومین رائٹس والکر ٹرک نے کہا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی سویلینز کو جس طرح نشانہ بنایا ہے اور انہیں مجبوراً گھروں سے بے دخل کیا ہے وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے مترادف ہے۔ اسرائیل کی شدید بمباری کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد جاں بحق ہوئی ہے‘ یہ سب کچھ ایک ناقابل برداشت نقصان ہے۔ کئی عالمی ماہرین نے وارننگ دی ہے کہ بچے کہیں بھی چلے جائیں‘ وہ شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ یونیسیف کی ڈائریکٹر کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ غزہ کے دس لاکھ سے زائد بچوں کے لیے کوئی بھی محفوظ جگہ نہیں ہے۔
اسرائیلی فوج کے امور کے ماہر یاگیل لیوی کا خیال ہے کہ الشفا پر حملہ کسی واضح حکمت عملی سے زیادہ اپنی طاقت کا اظہار تھا؛ تاہم اسرائیل نے حملہ کرکے اپنے یرغمالیوںکی زندگیوںکو خطرے میں ڈالا تھا۔ اسرائیل نے الشفا ہسپتال میں جا کر اپنے یرغمالیوں کی حفاظت اور مستقبل کو پیش نظر نہیں رکھا۔ الشفا کے قریب سے ملنے والی دو لاشوں سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر کرکے یرغمالیوں کی سیفٹی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے ریٹائرڈ جنرل کینتھ میکنزی نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اپنے بعض مقاصد حاصل کر لیے ہیں مثلاً اب حماس کی طرف سے راکٹ فائر کرنے میں کمی واقع ہو گئی ہے اور اس طرح اس کے فوجیوں کے لیے بھی خطرات میں کمی ہو گئی ہے۔ زمینی آپریشن میں 55 سے زائد اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اسرائیل بڑے محتاط طریقے سے زمینی پیش رفت کر رہا ہے جبکہ فضائی حملے پوری شدت سے جاری ہیں۔ جنرل میکنزی کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اب تک اسرائیل نے حماس کے کتنے اعلیٰ کمانڈر ہلاک کیے ہیں۔ اسرائیل ایک ہزار سے زائد جنگجوئوں کو شہید کرنے کے باوجود اپنے یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسرائیل نے حماس پر اس وقت چڑھائی کی تھی جب اس نے سات اکتوبر کو حملے کر کے چودہ سو سے زائد اسرائیلیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
امریکی وزارتِ دفاع نے فوری طور پر اسرائیل کی مدد کے لیے اسلحہ اور گولہ بارود کی بھاری کھیپ روانہ کر دی ہے۔ یو ایس سپیشل فورسز غزہ کے اوپر جاسوسی کرنے والے ڈرونز اڑا رہی ہیں تاکہ یرغمالیوںکی لوکیشن کا پتا چلایا جا سکے؛ تاہم زمینی کارروائی میں اسرائیلی فوج کی کو ئی مدد نہیں کی جا رہی ہے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل مائیکل کوریلا بھی جمعہ کو اسرائیلی فوج کے زمینی آپریشنز پر بریفنگ لینے کے لیے اسرائیل پہنچے ہیں۔ سات اکتوبر کے حملوںکے بعد یہ ان کا اسرائیل کا دوسرا دورہ ہے۔
جنرل کوریلا اور ان کا سٹاف اسرائیلی فوج کے پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر مسلسل میٹنگز کررہے ہیں۔ اس دوران جنگ جتنا طول پکڑے گی اسرائیلی معیشت پر اتنا ہی بوجھ میں اضافہ ہو گا۔ اب تک تین لاکھ ساٹھ ہزار ریزروز کو جنگ کے لیے سویلینز ملازمتوں سے ہٹایا گیا ہے۔ جنر ل میکنزی کا کہنا ہے کہ فی الحال ملکی اور عالمی سطح پر وقت اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے۔ اس سے اسرائیل کی فوج پر دبائو پڑ رہا ہے کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے مخالف فریق کو ہر ممکن نقصان پہنچا لے۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)