سب سے بہتر جسمانی ورزش
تحریر: سنڈی کزما
پید ل چلنا دنیا کی بہترین اور مقبول ترین جسمانی ورزش سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک سادہ، آسان اور مؤثر ایکسرسائز ہے۔ باقاعدگی سے پیدل چل کر ہم بہت سے جسمانی مسائل سے نجات پا سکتے ہیں جس میں انزائٹی، ذیابیطس اور کئی طرح کے سرطان شامل ہیں۔ ایکسرسائز فزیالوجسٹ ایلیسا اولینک کا کہنا ہے کہ جب آپ کا جسم واکنگ کا عادی ہو جاتا ہے تو ہم اس کی رفتار بڑھانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ پیدل چلنے کے بجائے بھاگتے ہیں تو اس سے آپ کو کم وقت میںاضافی جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اب سوال ہے کہ بھاگنا کس قدر مفید ہوتا ہے اور آپ اپنی واک کو کس حد تک رننگ میں بدل سکتے ہیں؟ جب آپ جسمانی فوائد کیلئے واکنگ یا رننگ کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں دو عوامل کو ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ اول؛ جسمانی ورزش کے ہماری فٹنس پر اثرات کہ یہ کس طرح ہمارے دل اور پھیپھڑوں کے فنکشن کو بہتر کرتی ہے۔ دوم؛ اس کے مثبت نتائج کیا ہیں؟ کیا یہ ہمیں زیادہ لمبی عمر تک جینے میں مدد کرتی ہیں؟
فٹنس کا تعین کرنے کے سنہرے اصول کو VO2 Max کہتے ہیں یعنی جب ہم سخت جسمانی ورزش کرتے ہیں تو اس میں کتنی آکسیجن استعمال ہوتی ہے۔ سپورٹس کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر ایلیسن زیلنسکی کا کہنا ہے کہ اس سے ہماری زندگی کی طوالت کا بھی پتا چلتا ہے۔ جب بوسٹن یونیورسٹی نے درمیانی عمر کے دو ہزار سے زائد خواتین و حضرات پر سٹڈی کی تو معلوم ہوا کہ ایک جگہ ساکن بیٹھے رہنے کے بجائے اگر ہم دن بھر سست قدموں کے ساتھ بھی چلتے پھرتے رہیں تو اس سے ہمارے VO2 Max میں بہتری آتی ہے۔ مگر جب ہم تیز واک کرتے ہیں تو اس سے زیادہ مؤثر نتائج ملتے ہیں جس سے ہمارے دل کی دھڑکن اور سانس لینے کی رفتار میں بہتری آتی ہے۔ اگر آپ اتنا سخت کام کرتے ہیں کہ آپ بات تو کر سکتے ہیں لیکن کوئی گانا نہیں گا سکتے تو آپ ایک درمیانی قسم کی سرگرمی سے گزرتے ہیں۔ سٹڈیز سے پتا چلتا ہے کہ معتدل سرگرمیوں سے بھی آپ کے دل کو تقویت ملتی ہے جس سے Mitochondria پیدا ہوتا ہے جو ہمارے پٹھوں کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔
فزیکل ایکٹوٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ڈک چل لی کہتے ہیں کہ بھاگنا ایک لحاظ سے زیادہ مفید ہے۔ کیوں؟ اس کی پیدل چلنے کے مقابلے میں رفتار زیادہ ہوتی ہے۔ پیدل چلتے ہوئے ہم ایک قدم اٹھاتے ہیں جبکہ بھاگتے ہوئے زیادہ قدم اٹھاتے ہیں جس کیلئے زیادہ طاقت اور انرجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنی رننگ جاگنگ سے شروع کرتے ہیں تو ہمارے دل اور پھیپھڑوں کو سخت کام کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران ہمیں اتنا سخت سانس لینا پڑتا ہے کہ ہم شاید چند ہی لفظ بول پاتے ہیں۔ امریکی ہیلتھ گائیڈلائنز کے مطابق ہمیں ہفتے میں 150 سے 300 منٹ کی تیز واک جیسی ایکسرسائز کرنی چاہئے۔ اس کے مطابق رننگ پیدل چلنے کے مقابلے میں دوگنا مفید ہوتی ہے۔ لیکن جہاں تک طویل العمری کا تعلق ہے تو رننگ زیادہ مفید اور مؤثر ہوتی ہے۔ 2011ء میں تائیوان میں ریسرچرز نے چار لاکھ سے زائد بالغ شرکا سے سوال پوچھا کہ وہ کس حد تک سخت ورزش کرتے رہے ہیں‘ تو معلوم ہوا کہ ان کی عمر میں پانچ منٹ کی رننگ سے پندرہ منٹ کی واک کے برابر فائدہ ہوا۔ 25 منٹ کی رننگ یا 105 منٹ کی واک سے اگلے آٹھ برسوں میں ان کے مرنے کا رسک 35 فیصد تک کم ہو گیا۔ ان اعداد و شمار سے فٹنس پر رننگ کے اثرات کی سمجھ آتی ہے۔ ڈاکٹر لی اور ان کے کولیگز نے بتایا کہ باقاعدہ رننگ کرنے والے یا 10 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جاگنگ کرنے والے افراد واک کرنے والوں یا ہر وقت بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ فِٹ تھے۔ ان میں اگلے پندرہ برسوں میں مرنے کا رسک بھی تیس فیصد کم تھا۔ اگرچہ ڈاکٹر لی رننگ کے زبردست حامی ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ آپ واک کرتے ہیں یا رننگ‘ اصل فرق اس میں باقاعدگی سے پڑتا ہے۔
ارننگ کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں؛ تاہم یہ درست نہیں کہ رننگ سے آپ کے گھٹنوں کو نقصان ہوتا ہے؛ البتہ قلیل مدتی انجریز ہوتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر بیلا مہتا کہتی ہیں کہ واک سے شروع کریں تو ہمارا جسم اس کا عادی ہو جاتا ہے جس سے رسک کم ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر زیلنسکی کے مطابق اپنے ایکسرسائز پروگرام کو آہستہ انداز میں شروع کرنا ہمیشہ مفید رہتا ہے۔ اگر آپ بھاگنا چاہتے ہیں تو اس میں بتدریج اضافہ کریں۔ ڈاکٹر لی کہتے ہیں کہ روزانہ اپنے قدموں کی گنتی میں اضافہ کریں۔ اگر آپ پہلے ایکسرسائز نہیں کرتے رہے تو روزانہ تین ہزار قدموں کا اضافہ کریں۔ پھر اپنی رننگ رفتار میں اضافہ کرتے جائیں۔ دس منٹ تیز واک سے شروع کریں اور ہفتے میں تین یا چار مرتبہ واک کریں۔ اس میں بتدریج اضافہ کرتے جائیں حتیٰ کہ آپ روزانہ ایک گھنٹہ اپنے قدموں پر چلنے کے قابل ہو جائیں۔ جوں جوں آپ کو فٹنس ملتی جائے تو آپ خود بخود تیز رفتاری سے واک کرنا شروع کر دیں گے۔ ایک یا دو مہینے کے بعد آپ عادی ہو جاتے ہیں تو پھر رننگ اور واکنگ میں وقفہ ڈالتے جائیں۔ پانچ منٹ کی تیز واک سے پہلے خود کو وارم اپ کریں۔ پھر ایک منٹ جاگنگ کریں اس کے بعد تین منٹ کی واک کریں۔ اس سائیکل کو تین سے پانچ مرتبہ دہرائیں۔ ایک یا دو ہفتے میں اپنی رننگ بڑھاتے جائیں اور واک کو کم کرتے جائیں یہاں تک کہ پھر آپ صرف رننگ کرنا شروع کر دیں۔ ڈاکٹر زیلنسکی کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی دائمی یا دل کی بیماری کا علاج کرا رہے ہیں یا سینے میں کوئی درد محسوس کرتے ہیں تو اپنے ڈاکٹر کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں۔ کسی قسم کی سخت ایکسرسائز شروع کرنے سے پہلے سٹریس ٹیسٹ یا کچھ دیگر جسمانی ٹیسٹ کروا کر ڈاکٹر سے کلیئرنس حاصل کریں۔ ڈاکٹر اولینک کا کہنا ہے کہ جو لوگ بھاگ نہیں سکتے یا بھاگنا نہیں چاہتے‘ وہ دیگر طریقوں سے سخت جسمانی سرگرمی شروع کر سکتے ہیں، مثلاً اپنے واکنگ روٹ میں کچھ پہاڑیاں شامل کر لیںاور جب ان پہاڑیوں کے اوپر چڑھنا شروع کریں تو اپنی رفتار میں قدرے اضافہ کر لیں۔ آپ جمناسٹک یا ملی جلی سخت ٹریننگ والی ورزشوں میںحصہ لے سکتے ہیں۔ بہترین ایکسرسائز مختلف سرگرمیوںکو ملانا ہے۔ کچھ دنوں تک تیز واک اور کچھ معتدل قسم کی جسمانی ورزشوں سے شروع کریںاور پھر ہر ہفتے واک کے قدموں میں اضافہ کرتے جائیں۔
(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)
(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)