ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

سائنسی دریافتوں کا شکریہ

تحریر: پیٹر کوئے

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ 2023ء کا کوئی واقعہ‘ جو آنے والے دنوں میں ہماری زندگیاں تبدیل کر سکتا ہے‘ وہ چین کے جاسوسی غبارے کا نظر آنا یا سلیکون ویلی بینک کا ناکام ہونا نہیں ہے اور نہ ہی امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکرشپ سے کیون میکارتھی کا ہٹ جانا ہے‘ نہ ہی کوئی اور سنگین واقعہ جس نے اس سال ہمارے اوسان خطا کر دیے ہوں۔ غالب امکان ہے کہ یہ انقلابی واقعہ سائنس یا ٹیکنالوجی کی ترقی ہو گی جس کے بارے میں اس وقت شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ دنیا میں ’’ٹرانزسٹر‘‘ کا لفظ پہلی مرتبہ 1948ء میں نیویارک ٹائمز کے صفحہ نمبر 46 پر شائع ہوا تھا اس کے بعد امریکہ کے دو ریڈیو شوز Mr.Tutt اور Our Miss Brooks میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ میرے خیال میں ہم اس بات پر متفق ہو سکتے ہیں کہ پچھلے 75 برسوں میں کسی بھی انٹرٹینمنٹ کے مقابلے میں ٹرانزسٹر نے ہماری روزمرہ زندگی پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ بزنس میں اتار چڑھائو کے ادوار‘ جن پر میں اکثر لکھتا رہتا ہوں‘ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ الیکشنز بہت اہم ہوتے ہیں‘ جنگیں بہت اہمیت رکھتی ہیں لیکن پوری انسانی تاریخ میں یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہے جس نے سب سے زیادہ ہماری زندگیوں کو تبدیل کیا ہے اور ان میں بہتری آئی ہے۔ میں چھٹیوں کے اس سیزن میں اس ترقی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

اسی طرح گھروں میں ٹرکی (فیل مرغ) جیسے پرندوں‘ جانوروں کو پالنا بھی اہم ہے اور ٹرکی کو پکانے کے لیے آگ کا استعمال سیکھنا بھی اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے۔ پہیے کی ایجاد بھی اتنی اہم ہے کہ جن پر سوار ہو کر ہم اپنی نانی ماں کے گھر جاتے ہیں۔ کووڈ کی ویکسین کے تو کیا ہی کہنے! جس کے بغیر نانی اماں ہمیں گھرسے باہر قدم بھی نہیں رکھنے دیتی تھیں۔ اس تھینکس گیونگ ویک اینڈ پر میں نے معاشیات سے متعلق کسی فنکشن میں جانے کے بجائے پچھلے سال سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی ترقی کا جشن منانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی ایک وجہ ان کی اہمیت اور دوسری وجہ ان کا مفید ہونا ہے۔ ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس متعدد ادویات یعنی ملٹی ڈرگز کی مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف ایک جنگ لڑ رہی ہے۔ مئی میں میک ماسٹر یونیورسٹی آف ہیملٹن اونٹاریو کے سائنسدانوں نے ایک جریدے نیچر کیمیکل بیالوجی میں یہ رپورٹ کیا ہے کہ انہوں نے مشین لرننگ کو Acinetobacter baumannii کے خلاف ایک کمپائونڈ کی تیاری کے لیے استعمال کیا تھا جو ہسپتالوں میں مریضوں کو وینٹی لیٹرز اور کیتھیٹرز کے ذریعے انفیکشن کر سکتا ہے۔ سائنسدانوں نے اس بیکٹریا کے خلاف 7500 سے زائد مالیکیولز کو آزمایا اور پھر اس کا ڈیٹا اپنے کمپیوٹرز میں ڈالا تاکہ ان میں سے ایک جیسے اثرات رکھنے والے مالیکیولز کوتلاش کیا جا سکے۔ پھر اس ماڈل کو 6680 ایسے مالیکیولز پر استعمال کیا گیا جسے اس سے پہلے ان کے سامنے ایکسپوز نہیں کیا گیا تھا۔ ان میں سے جوایک Acinetobacter baumannii کے خلاف سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوا اسے ذیابیطس سے خراب ہونے والے انسانی گردوں کے علاج کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے کچھ خوفناک پہلو بھی ہیں مگر اس معاملے میں تو یہ بلاشبہ ایک زبردست کام کر رہی ہے۔ اگر ہم میڈیسن کی بات کریں تو یونیورسٹی آف منیسوٹا کے ریسرچرز نے اس سال بتایا ہے کہ وہ ایک چوہے کے گردوں کو ایک سو دنوں کے لیے انتہائی ٹھنڈے درجہ حرارت پر محفوظ کرنے، پھر اسے دوبارہ نارمل درجہ حرارت تک گرم کرکے دوسرے چوہوں میں ٹرانسپلانٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ چوہوں کے لیے تو زبردست خبر ہے ہی مگر یہ ان انسانوں کے لیے اس سے بھی زیادہ شاندار خبر ہے جن کے گردے خراب ہو چکے ہوں۔ جیسا کہ سا ئنس اینڈ سائنٹفک امیریکن میں بتایا گیا ہے کہ ریسرچرز نے پہلے ان گردوں میں حفاظتی فلوئیڈز اور آئرن آکسائیڈ کے نینو پارٹیکلز ڈالے اور پھر انہیں آئس کرسٹلز بننے سے پہلے بڑی تیزی سے ٹھنڈا کر دیا۔ انہیں اصل کامیابی یہ ملی کہ گردوں کو ان کے اندر سے ہی حرارت لے کر گرم کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے انہیں ایک آلٹر نیٹنگ مگنیٹک فیلڈ میں رکھا گیا جس نے نینو پارٹیکلز کو تیزی سے گھماکر ان میں حرارت پیدا کر دی۔ ریسرچرز نے امید ظاہر کی ہے کہ بہت جلد انسانی اعضا کے لیے بھی یہ ٹرائلز شروع ہو جائیں گے۔ ایک سال پہلے چین اور جاپان کے سائنسدانوں نے بھی یہ انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے امونیا بنانے کا ایک جدید طریقہ دریافت کر لیا ہے جس کا کھاد کی تیاری میں بھاری استعمال ہوتا ہے اور مستقبل کی ہائڈروجن کی مدد سے چلنے والی معیشت میں یہ اہم انرجی کیریئر کے طور پر استعمال ہو گی۔

امونیا کی تیاری میں ایک معیاری طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے جس میں ایک بلند دبائو اور درجہ حرارت پر آئرن کے کیٹالسٹس یعنی عمل انگیز استعمال کیے جاتے ہیں اسے h Haber-Bosc پروسیس کہا جاتا ہے۔ اس میں بہت زیادہ انرجی استعمال ہوتی ہے اور بھاری مقدار میں گرین ہائوس گیسز بھی پیدا ہوتی ہیں۔ پلاٹینم گروپ سے تعلق رکھنے والی روتھینیم اس پروسیس میں ہائی پریشر اور ٹمپریچر کے بغیر ہی ایک عمل انگیز کا کام کرتی ہے مگر یہ بہت مہنگی دھات ہے۔ اس پر آنے والی لاگت کم کرنے کے لیے ریسرچرز نے لینتھینم نائٹرائیڈ کی مدد سے کوبالٹ اور نکل جیسی دھاتوں کو ایک کیٹالسٹ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر لینتھینم نائٹرائیڈ نمی کی بدولت بڑی آسانی سے ٹو ٹ جاتا ہے۔ سائنسدانوں کو کامیابی اس وقت ملی جب انہوں نے لینتھینم نائٹرائیڈ میں ایلومینیم کے ایٹم بھی شامل کر دیے تو اس نے اسے کیمیائی طور پر مستحکم کر دیا۔ یہ سائنس کی محض چند مثالیں ہیں اور شاید بہترین مثالیں بھی نہیں ہیں۔ میں ریسرچرز کی کامیابی کو بیان کرتے ہوئے زیادہ تفصیل میں چلا گیا۔ فطرت اپنے راز اگلنے میں بخل سے کام لیتی ہے۔ جو ریسرچرز سائنس اور ٹیکنالوجی کے یہ راز افشا کرتے ہیں وہ بہترین دماغ ہوتے ہیں۔ محض یہ تین دریافتیں ہی ہماری زندگیوں میں شاندار بہتری لا سکتی ہیں۔ اب شاید ہی کسی ہسپتال میں انفیکشن پھیلے گا، ٹرانسپلانٹیشن کے لیے گردے آسانی سے دستیاب ہوں گے اور گرین ہائوس گیسز کا اخراج بھی نہیں ہو گا۔

اب علم برائے علم بھی دستیاب ہو گا‘ جیسا کہ نیوز لیٹر ’’لیبارٹری ایکوئپمنٹ‘‘ نے اپنے سال کے اختتام پر ریویو میں انکشاف کیا ہے کہ سائنسدانوں کی ایک عالمی ٹیم نے ناسا کی جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کی مدد سے پہلی مرتبہ خلا میں سے کاربن کا ایک نیا مرکب دریافت کیا ہے جس کا نام methyl cation ہے اور یہ اورین نیبولا میں ایک چھوٹے سٹار سسٹم میں سے ملا ہے۔ یہ کاربن سے متعلق مالیکیولز کی ابتدائی شکل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی سے زندگی کی ابتدا ہوئی تھی۔ ناسا نے بھی اسے رپورٹ کیا ہے۔ ہم شاید فوری طور پر تو ان کاربن مالیکیولز کو نہ چیک کر سکیں کیونکہ اگر ہم روشنی کی رفتار سے بھی سفر کریں تو انہیں حاصل کرنے میں ہمیں 1350 سال لگ جائیں گے۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ یہ موجود ہیں۔ سائنس ڈیلی نے یہ بھی بتایا ہے کہ تھائی لینڈ سے ٹرائلوبائٹس کی دس نئی اقسام دریافت ہوئی ہیں جو 490 ملین سال سے پوشیدہ تھیں اور یہ اپنی ٹانگوں کے ذریعے سانس لیتے ہیں۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں