اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دہشت گردی کے خطرات

کراچی میں گزشتہ روز غیر ملکی شہریوں پر دہشتگردانہ حملے نے ایک بار پھر ملک میں امن و امان کے خطرات کی جانب توجہ مبذول کی ہے۔ اگرچہ اس قافلے کے ساتھ تعینات نجی سکیورٹی گارڈز اور موقع پر پہنچ جانے والے پولیس اہلکاروں کی بروقت کارروائی اورخود کش بمبار کے ہدف سے پہلے پھٹ جانے کی وجہ سے قافلے میں شامل تمام غیر ملکی شہری‘ جن کا تعلق جاپان سے بتایا گیا ہے‘ محفوظ رہے؛ تاہم اس دوران ایک سکیورٹی گارڈ جاں بحق ہو گیا جبکہ خود کش بمبار کا ایک مسلح ساتھی پولیس کی فائرنگ سے انجام کو پہنچا۔ جاپانی شہریوں کے اس قافلے کی منزل لانڈھی ایکسپورٹ پراسیسنگ زون بتائی گئی ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان افراد کا تعلق یا تو تکنیکی شعبے سے ہو گا یاصنعتی شعبے سے‘ ہر دو صورتیں ملکی معیشت اور سرمایہ کاری سے جڑی ہوئی ہیں؛ چنانچہ اس حملے کے معاشی مضمرات کو بھی مد نظر رکھناہو گا۔اس طرح دہشت گردی کا یہ واقعہ انہی واقعات کا تسلسل معلوم ہوتا ہے جو حالیہ کچھ عرصے کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں ہوچکے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں ان واقعات کا خاص ہدف نظر آتی ہیں۔ دہشتگردی کے ان واقعات سے اس خطرے کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت تھی‘ مگر اس تازہ ترین وقوعے سے‘ جس میں خوش قسمتی سے غیر ملکی شہریوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا‘ ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی شہریوں کی حفاظت کیلئے ضروری اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ جن پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے خود کش بمبار کا ایک ساتھی ہلاک ہوا‘ وہ بھی حسبِ معمول گشت پر تھے اور دھماکے کی آواز سُن کر جائے وقوعہ پر پہنچے۔دہشتگردی کے اس واقعے کے بعد سکیورٹی اداروں کو غیر ملکی شہریوں خاص طور پر معاشی سرگرمیوں سے منسلک غیر ملکیوں کی حفاظت کا خصوصی لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردی کے ان واقعات میں کون ملوث تھا‘ یہ سکیورٹی اداروں کیلئے اب کوئی راز نہیں ہے۔ اس تازہ ترین وقوعے کے ذمہ داروں کے بارے بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق بھی وہیں سے تھا جہاں سے حالیہ دنوں دہشتگردی کے اکثر واقعات کا سراغ ملتا آیاہے۔ سکیورٹی کے ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومتوں کو بھی خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔صوبائی سطح پر انسدادِ دہشتگردی کی فورسز کی بہتری اور نفری بڑھا کر ان چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر قومی سلامتی کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے چیلنجز کثیر جہتی ہیں۔ یہاں ایسے دہشتگردوں کا بھی سامنا ہے جن کے ٹھکانے سرحد پار کے علاقوں میں ہیں اور ایسے عناصر بھی ہیں جو یہیں‘ ہمارے بیچ چھپے ہوئے ہیں اور موقع ملنے پروار کرتے ہیں۔ معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے اور غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے میں اکثر یہی عناصر ملوث پائے گئے ہیں‘ اس لیے ہر سطح اور نوعیت کے خطرے سے نمٹنے کیلئے مخصوص حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ یقینا سکیورٹی ادارے دہشتگردی کے بہت سے حملوں کو ناکام بنانے میں کامیاب رہے ہیں مگر ان کامیابیوں کے باوجود درپیش خطرات کی شدت سے انکار ممکن نہیںاور نہ ہی اس جانب سے غافل ہوا جاسکتا ہے۔ دہشتگردوں کے خلاف حکومتی سطح پر مضبوط عزم اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے پوری طرح آمادہ اور تیار ہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر قانون نے قومی اسمبلی میں اس حوالے سے جو بیان دیا وہ پاکستان کے ریاستی عزم کا آئینہ دار ہے۔ بے شک دہشتگردی کے خطرات کی اپنی نوعیت ہے اور چھپ کر وار کرنے والا دشمن قومی سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے‘ مگر ریاستِ پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور دہشتگردی سے نمٹنے کا عزم اس سے کہیں بڑاہے۔ البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ضروری اقدامات بروقت انجام دیے جائیں کہ سکیورٹی معاملات میں وقت پر کیے گئے اقدامات ہی کی اصل اہمیت ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement