گندم درآمد سکینڈل
گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقات کے دوران یہ ہوشربا انکشاف ہوا ہے کہ نجی شعبے کو گندم درآمد کرنے کی کھلی چھوٹ دینے سے 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کرنے کے سبب سٹوروں میں درآمدی گندم کا وافر ذخیرہ موجود ہونے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے ابھی تک گندم کی نئی فصل کی خریداری شروع نہیں کی گئی۔ حکومت کی طرف سے گندم نہ خریدنے کی وجہ سے ڈیلرز اور فلور ملز مالکان کسانوں کا خوب استحصال کر رہے ہیں اور گندم سرکاری ریٹ سے ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے فی من کم قیمت پر خرید رہے ہیں۔ اس کم قیمت پر کسان منافع کیا کمائے گا‘ اُس کی تو لاگت بھی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ گندم سکینڈل کی تحقیقات کرنیوالی کمیٹی کے مطابق گزشتہ برس پاسکو اور صوبائی محکمے مطلوبہ ہدف 7.80ملین ٹن کے بجائے 5.87 ملین ٹن گندم ہی خرید پائے جس کی وجہ سے ملکی ضروریات کیلئے گندم درآمد کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ عالمی بینک کی ’’فوڈ سکیورٹی اَپ ڈیٹ‘‘ کے مطابق رواں برس پاکستان کی گندم کی درآمدات میں اضافہ متوقع ہے کیونکہ رواں سال حکومت نے گندم خریداری ہدف مزید کم کرکے گزشتہ سال سے نصف کر دیا ہے۔ حکومت کو گندم درآمد سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی یقینی بنانے کیساتھ ساتھ نئی فصل کی بلاتاخیر خریداری شروع کرنی چاہیے تاکہ کسانوں کو انکی محنت کی پوری قیمت مل سکے اور ملکی ضروریات مقامی فصل سے پوری ہو سکیں۔