بھارت میں 19اپریل سے شروع ہونے والے مرحلہ وار عام انتخابات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا تیسرا اور سب سے اہم مرحلہ سات مئی کو مکمل ہوا تھا۔ 13مئی سے انتخابات کا چوتھا مرحلہ شروع ہو چکا ہے جبکہ ساتواں اور آخری مرحلہ یکم جون کو مکمل ہو گا‘ جس کے تین دن بعد یعنی چار جون کو نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا‘ مگر نتائج کے بارے میں قیاس آرائیاں ابھی سے شروع ہو گئی ہیں۔ ان قیاس آرائیوں کے مطابق بھارت کے اٹھارہویں عام انتخابات میں ایک بہت بڑا اور مکمل طور پر غیرمتوقع اَپ سیٹ ہونے والا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا دعویٰ کہ ان کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی 2024ء کے انتخابات میں لوک سبھا کی 543میں سے 400سے زیادہ نشستیں جیتے گی‘ سچ ثابت ہوتا نظر نہیں آ رہا بلکہ انتخابات کے تیسرے مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد بھارتی انتخابی سیاست میں جو رجحانات سامنے آئے ہیں ان کی روشنی میں بی جے پی کو حکومت بنانے کے لیے کم از کم درکار 272نشستیں بھی مشکل سے حاصل ہوتی نظر آ رہی ہیں حالانکہ صرف تین ماہ قبل یعنی جنوری 2024ء تک بیشتر تجزیہ کار اور سرویز متفقہ طور پر اس رائے کے حامی تھے کہ 400یا اس سے زیادہ نہ سہی مگر بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس میں شامل اس کی اتحادی جماعتیں 2019ء کے انتخابات سے کچھ زیادہ سیٹیں جیتنے میں میاب ہو جائیں گی۔ واضح رہے کہ 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے 303نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ این ڈی اے میں شامل سیاسی جماعتوں کی نشستیں ملا کر ایوان میں ان کی تعداد 353ہو گئی تھی۔ لیکن اب لگ بھگ سبھی حلقے اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بی جے پی اگر 272نشستوں کے کم از کم ٹارگٹ تک بھی پہنچ جائے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔ کانگریس رہنماؤں نے تو اعلان کر دیا ہے کہ بی جے پی ہارنے جا رہی ہے۔اب بی جے پی کے نعرے ''اب کی بار 400پار‘‘ کے بجائے ''اب کی بار مکمل ہار‘‘ کے نعرے گونج رہے ہیں۔
مودی کے حامی بھارتی ٹیلی ویژن چینلز کے اینکر پرسنز سات مئی سے قبل انتخابات میں بی جے پی کی لینڈ سلائیڈ وکٹری اور راہول گاندھی کی قیادت میں کانگرس کی مکمل شکست کو یقینی قرار دے رہے تھے‘ مگر اب وہ بھی بی جے پی کے رہنماؤں سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ مودی کے مقابلے میں راہول گاندھی کی مقبولیت میں اچانک اضافے کی کیا وجوہات ہیں اور بی جے پی کی ہار کے امکانات کو کیوں سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے؟ بی جے پی کے حلقے اگرچہ اس کی سختی سے تردید کر رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ 28اپوزیشن پارٹیوں پر مشتمل اتحاد ''انڈیا‘‘ اپنی شکست کو یقینی دیکھ کر غلط خبریں اور افواہیں پھیلا رہا ہے مگر اس حقیقت کو اب بھارت کے تمام سیاسی اور صحافتی حلقے تسلیم کر رہے ہیں کہ آج سے چار ماہ قبل بی جے پی کی جیت کے حق میں جو پُر امید اور اعتماد سے بھرپور فضا پائی جاتی تھی‘ وہ انتخابی عمل کے آدھے حصے کی تکمیل کے بعد موجود نہیں ہے اور اب بی جے پی کے حلقوں میں مایوسی اور بدحواسی پائی جاتی ہے جو بی جے پی کے رہنماؤں بشمول وزیر اعظم مودی کے بیانات سے بھی ظاہر ہو رہی ہے۔ ان بیانات میں وزیراعظم کی طرف سے بھارتی مسلمانوں کو ''گھس بیٹھیے‘‘ اور ''زیادہ بچے پیدا کرنے والی کمیونٹی‘‘ قرار دینے والے غیر ذمہ دارانہ بیانات بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں انتخابات میں حصہ لینے والی ایک مسلم خاتون کی طرف سے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کیلئے انتخابی عمل میں شرکت کو جہاد سمجھ کر حصہ لینے کے بیان کو نریندر مودی نے جس طرح توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے الگ کرکے پیش کیا‘ اس کا واحد اور واضح مقصد اپنے ہندو ووٹرز کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا ہے۔ بھارت میں آزادانہ تحقیق کرنے والے اداروں نے بھی نریندر مودی کے ان دعووں کو حقائق کے منافی اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم مودی نے کانگرس پر الزام لگا کر کہ وہ برسر اقتدار آ کر ہندوؤں کی جائیدادوں میں مسلمانوں کو حصہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے‘ ہندو ووٹرز خصوصاً خواتین کو راہول گاندھی سے متنفر کرنے کی کوشش کی۔ انتخابات میں بی جے پی کے مقابلے میں حصہ لینے والی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے اسے شکست دیکھ کر وزیراعظم مودی کی بوکھلاہٹ کا اظہار قرار دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ صرف چار ماہ قبل لوک سبھا کے 543کے ایوان میں 400سے زیادہ سیٹیں جیت کر‘ 1984ء کے انتخابات میں راجیو گاندھی کے 414نشستیں حاصل کرنے کے ریکارڈ کو توڑنے کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی کو شکست یا کم از کم اپنے دعوے کے حصول میں ناکامی کا خوف کیوں لاحق ہو گیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں بھارت کے سیاسی اور صحافتی حلقوں کی طرف سے مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں لیکن ایک وجہ پر سب متفق نظر آتے ہیں اور وہ یہ کہ اپنے10 سالہ دورِ حکومت میں شرحِ نمو‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں اضافے کے باوجود بھارت میں بیروزگاری عام ہے اور مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی کے 10سالہ دورِ حکومت میں بھارت کی معیشت نے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہونے کا مقام حاصل کیا اور اس کی برآمدات میں اضافہ ہوا مگر بھارت کے ایک سابق چیف سٹیٹس ٹیشین (Statistician) پردھاب سین کے مطابق یہ محض اعداد و شمار کے ہیر پھیر کا نتیجہ ہے۔ اگر بغور تجزیہ کیا جائے تو ان دس برسوں کے دوران بھارتی معیشت نے انڈر پرفارم کیا ہے اور اس کا ثبوت نریندر مودی دور میں مہنگائی اور بیروزگاری میں ریکارڈ اضافہ ہے۔ اگر معیشت نے ترقی کی تو اس کا فائدہ کارپوریٹ سیکٹر کو ہوا‘ یعنی امیر زیادہ امیر اور غریب مزید غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا یہ فرق اس وقت بھارت کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت ہے اور اس کے اثرات عام آدمی کی سوچ اور مستقبل کے بارے میں اس کے خیالات پر بھی پڑ رہے ہیں۔ مسلسل دو بار وزیراعظم بن کر نریندر مودی نے اپنے دس سالہ دور میں مزدوروں‘ کسانوں اور محنت کشوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بھارت چھوڑ کر دوسرے ملکوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں بھارت کی پانچ ریاستوں (مدھیہ پردیش‘ راجستھان‘ چھتیس گڑھ میزورام‘ اور تلنگانہ) کے ریاستی انتخابات میں لینڈ سلائیڈ کامیابی حاصل کرنے کے بعد نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ انتخابات (2024ء) میں وہ دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے بھارت کی معیشت کودنیا کی تیسری بڑی معیشت بنا دیں گے لیکن اس اعلان نے بھارتی عوام کی اکثریت میں خوشی کے بجائے خوف کا احساس پیدا کیا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ بھارتی معیشت کو پانچویں بڑی معیشت بنانے سے ایک عام آدمی کو کیا ملا؟ اس دوران مہنگائی اور بیروزگاری میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ انہی پالیسیوں کے تحت مودی اگلے پانچ سال میں بھی بھارتی قوم کو پہلے سے زیادہ مہنگائی اور بیروزگاری کا تحفہ دیں گے۔ علاوہ ازیں بھارت کے سنجیدہ حلقوں میں جو یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ مودی کی مقبولیت مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تعصب جیسے اقدامات کی وجہ سے ہے‘ لہٰذا نریندر مودی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے آئین میں ایسی ترامیم کرنا چاہتے ہیں جن کے ذریعے وہ بھارت کے موجودہ پارلیمانی وفاقی نظام کو صدارتی اور صوبوں کے مقابلے میں مضبوط وفاقی نظام میں تبدیل کر دیں۔ بہت سے حلقوں کی نظر میں نریندر مودی بھارت میں جمہوریت کے نام پر عملاً ایک ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بشمول کانگرس نے انہی خدشات کو اپنے بیانیے کی بنیاد بنایا ہوا ہے اور وہ غیرمتوقع طور پر اسے مؤثر طور پر استعمال کر رہی ہیں۔