کہیں آگ لگ جائے تو اسے بجھانے کے لیے چپ کا روزہ رکھوا کر ''سب پروپیگنڈا ہے‘‘ کا نعرہ لگانے سے شعلے ہوا پکڑتے ہیں‘ آگ کبھی نہیں بجھتی۔ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے Baseکیمپ‘ آزاد کشمیر کی تازہ مثال سب کے سامنے ہے۔
خدا کی زمین پر اگر کوئی اپنے جبروت کا پلان فول پروف اور سو فیصد پرفیکٹ سمجھتا ہے تو تاریخ اسے یاد دلاتی رہتی ہے کہ فرعون کا دریائے نیل میں ڈوب مرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا مگر اسے ڈوبنا تھا اور اسے ڈوبنا پڑا۔ شداد کا اگلے سینکڑوں سال تک اپنی جنت میں عیاشیاں کرنے کا پکا ارادہ تھا مگر دروازے پر پہنچ کر شداد کو جنت میں داخلے سے پہلے مرنا تھا اور وہ مر گیا۔ نمرود کی پلاننگ تو کئی صدیاں مزید حکومت کرنے کی تھی‘ وہ انتہائی طاقتور‘ جابر اور پرلے درجے کا ظالم تھا مگر اسے ایک مچھر کے ہاتھوں مرنا تھا اور مچھر نے اسے مار ڈالا۔ ایڈولف ہٹلر کے ارادے خطرناک سے بھی زیادہ بے باک تھے‘ وہ دنیا کی نسل تبدیل کرنے میں مصروف تھا مگر قدرت نے حالات ایسے پلٹائے کہ اسے خودکشی سے مرنا تھا اور وہ خودکشی کرنے پر مجبورہوا۔ عالمی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ سبق بھی واضح لفظوں میں ملتا ہے کہ ہر قوم کے مظلوموں پر ظلم کرنے والے ظالم کو قدرت ایک مدت تک ہی برداشت کرتی ہے۔ پھر رب کی پکڑ اسے نشانِ عبرت بنا چھوڑتی ہے۔ ایسے کئی نشانِ عبرت جو اپنے آپ کو ناگزیرسمجھتے تھے۔ وہ آج بھی ہمارے ارد گرد بے آسرا‘ بے وقعت اور بے توقیر چھپتے پھر رہے ہیں۔
اسی لیے دنیا کی سب سے بڑی سچائی جو قلبِ مصطفیﷺ پہ اتاری گئی اس میں ربِ کعبہ نے ظالموں کو کھلی وارننگ دی اور فرمایا: ان بطش ربک لشدید ''یقینا تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے‘‘۔
آگ کون لگاتا ہے اور آگ کیسے لگتی ہے‘ یہ جدید تاریخ اکتوبر 1922ء سے شروع ہوئی۔ جب جعلی انتخاب کے ڈرامے نے اٹلی کے فوجدار مسولینی کو وردی سمیت وزیراعظم بنا دیا۔ جون 1923ء میں مسولینی نے آئین میں جرنیلی ترمیم کرکے انتخابی قوانین اور الیکشن کے عوامی ادارے کو اپنا گھریلو ملازم بنا لیا۔ اپریل 1924ء کے انتخابات میں مسولینی کو عوام نے بھاری اکثریت سے بڑے پیمانے پر مسترد کر ڈالا۔ سوشلسٹ پارٹی کے عوامی رہنما جاکومو ماتیوتی (Giacomo Matteotti) کے حق میں اٹلی نے بھر پور ووٹ ڈالا مگر ووٹ کی گنتی کرنے والے چند درجن لوگوں نے جیتی ہوئی سوشلسٹ پارٹی کو ہرا دیا۔ لیکن جاکومو ماتیوتی پارلیمنٹ میں مزاحمتی مورچہ لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ اٹالین ڈکٹیٹر سیلف سٹائل آرمی چیف مسولینی نے عظیم مفکر گرامچی کے دفتر میں آتش زنی (Arson) کی واردات کروائی جس کی آڑ میں جاکومو ماتیوتی کو پہلے اغوا کرکے گمشدہ رکھا گیا‘ بعد میں قتل کر دیا گیا۔ گرامچی جیسا عالمی آئیکون 1937ء تک اپنی آخری سانسں کے ساتھ موت کے انتظار میں سلاخوں کے پیچھے بند رہا۔ چند سال بعد مسولینی نے کُھل کر اعتراف کر لیا کہ جاکومو ماتیوتی کو اس کے براہِ راست حکم کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں مسولینی کی عبرت انگیز موت اور اس کی لاش کے ساتھ وحشت ناک سلوک بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
آتش زنی کی اگلی واردات 27 فروری 1933ء کو متحدہ نازی جرمن پارلیمنٹ ریشتاغ میں ہوئی۔ جرمن پارلیمنٹ ریشتاغ کو جلانے کا الزام براہِ راست جرمن کمیونسٹ اپوزیشن پر لگایا گیا۔ ہٹلر حکومت کے ایک طاقتور جرنیل اور وزیر ہرمن گورنگ نے آگ لگنے سے پہلے ہوائی جہاز کے ذریعے جرمنی کے دارالحکومت برلن پر کمیونسٹ لٹریچر پھینکا۔ اس آتشزدگی کا بہانہ بنا کر ہٹلر نے ریشتاغ فائر ڈیکری نام کا قانون بنایا۔ آزادیٔ اظہار‘ اجتماع‘ پریس پر پابندیاں لگا دیں۔ قومی سلامتی کے نام پر فون ٹیپنگ کو قانون قرار دیا۔ سول آزادیاں چھین لیں اور پولیس کی تفتیش پر پابندیوں کا قانون ختم کر ڈالا۔
اسی تسلسل میں مارچ 1924ء کی تاریخ بڑی اہم ہے۔ جب سوویت یونین میں لینن کی موت کے بعد سٹالن نے حکومت ہتھیا لی لیکن قد آور بالشیوک رہنما اس کے آمرانہ ارادوں کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ چنانچہ دسمبر 1934ء میں سٹالن نے پولیٹ بیورو کے سب سے سرگرم رکن سرگئی کیروف کو قتل کروا دیا۔ کیروف کے قتل کی آڑ میں سٹالن نے پوری سینئر قیادت پر مقدمات بنوائے اور پوری قیادت کو کینگرو کورٹس کارروائی کے ذریعے قتل کروا دیا۔ پھر سیاسی کارکنوں‘ دانشوروں اور Genuine فوجی قیادت کے خلاف اداراہ جاتی صفائی کے نام پر کریک ڈاؤن کے ذریعے لاکھوں ورکرز صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔
ہماری 76سالہ تاریخ کے ساتھ جو سلوک ہماری مقتدر اشرافیہ نے کیا وہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھنا۔ بالخصوص رجیم چینج کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے والی دھکا شاہی کے ذریعے آج نوجوان نسل کو پچھلی صدی میں جینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پچھلی نہیں بلکہ اس سے بھی پچھلی صدی میں۔ جب فالس فلیگ آپریشن کی اصطلاح ہرمن گورنگ نے ایجاد کی اور جرمنی سے ''کم تر شہری‘‘ کا وجو د ختم کرنے کے لیے ظلم کے نئے نئے ضابطے ایجاد کیے۔ یہ ضابطے ریاست کی فوجداری کتاب پر لانے سے پہلے فالس فلیگ آپریشن کروایا جاتا۔ جس کے نتیجے میں اپوزیشن کو نازی جرمنی کی قومی سلامتی کا غدار ٹھہرا کر گرفتار‘ غائب اور صفحۂ ہستی سے مٹایا جاتا۔
اسی تناظر میں جاری صدی کے فالس فلیگ آپریشن ان دنوںخوب زیر بحث ہیں۔ ایک فالس فلیگ آپریشن بھارت نے 14فروری 2019ء کو انڈین مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں سٹیج کیا۔ جس کا مقصد ریاستِ جموں کشمیر کا مسلم سٹیٹس ختم کرنا تھا۔ پلوامہ فالس فلیگ کے بار ے میں بھارت کا مؤقف اور ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف اس سے مختلف۔
ہمارے یہاں 9مئی 2023ء کے حوالے سے ریاستی مؤقف واضح ہے‘ مگر اشتباہ دو واقعات سے جنم لیتا ہے۔ پہلا دن دہاڑے اسلام آباد ہائیکورٹ سے عمران خان کا اغوا تھا۔ اس واردات کو محض 48گھنٹوں میں ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے غیر قانونی قرار دیا۔ مگر اس کھلی اغوا کاری پر آج تک نہ کوئی FIRکٹی‘ نہ JITبیٹھی اور نہ ہی کمیشن بنا۔
عین اسی روز ملک بھر میں احتجاجی واقعات ہوئے‘ جن کی بنا پر 10ہزار سے زیادہ لوگ گرفتارکرکے چادر اور چار دیواری کو پامال کیا گیا۔ جس پہ FIRsاور مقدمات کی لائن لگ گئی۔ PTIکے مارے جانے والے کارکنوں کی تعداد 17ہے مگر یہ سول بغاوت تھی یا کوئی سوچا سمجھا منصوبہ‘ اس بحث کو ختم کرنے کے لیے آج تک کوئی جوڈیشل کمیشن مسلسل مطالبات کے باوجود نہیں بنایا گیا۔ دوسری واردات سے اس بحث کو ڈبل سپیڈ لگی۔ بالکل ویسے ہی جیسے آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے ایک سال پرانے احتجاج پر ڈبل ریاستی فورس استعمال ہوئی۔
آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے معروف انقلابی شاعر احمد فرہاد بھی اب لاپتا افراد کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ قومیں کیا ایسے بنتی ہیں؟ یونٹی‘ فیتھ اور ڈسپلن کیا اس طرح قائم ہو گا؟ منو بھائی نے اس طرزِ حکمرانی پر 'اجے قیامت نئیں آئی‘ کا علامتی شاہکار تخلیق کیا۔
پارا تھرمامیٹر دا‘ سیاست چودھری طالب دی
ہیرا منڈی شاہیے دی‘ دہلی مرزا غالب دی
چادر جنرل رانی دی‘ تے چار دیواری جالب ؔدی
پر اجے قیامت نئیں آئی