پہلے فلمیں بڑی سکرین پر پیش کی جاتی تھیں اور ان کی کشش ہی کچھ اور ہوا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں کراچی میں ڈرائیو اِن سنیما ہوا کرتا تھا‘ میرے والدین اکثر ہمیں وہاں لے کر جاتے تھے۔ ہم بچے تو وہاں بھی کھیلتے رہتے تھے مگر بڑے مووی انجوائے کرتے تھے۔ اُس وقت صاحبہ‘ ریمبو‘ ریما‘ ریشم‘ میرا اور شان فلم انڈسٹری پر راج کر رہے تھے۔ جب میں اسلام آباد آئی تو یہاں کوئی سینما ہی نہیں تھا۔ نیف ڈیک نام کا ایک علامتی سینما ضرور تھا مگر زیادہ تر لوگ کیبل یا ڈش کے ذریعے فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ فلموں کی تفریح انسانوں کے ساتھ ساتھ ملکوں کے لیے بھی ضروری ہے کیونکہ ماس کمیونیکیشن کے اس دور میں مختلف ممالک اس میڈیم کو ذہن سازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہالی وڈ اور بالی وڈ آج دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ اسی طرح کوریا اور ترکیہ کے فنکار بھی دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر ہالی وڈ منظم اندا زمیں اپنی فلموں کو ریاستی مفاد میں استعمال کر رہا ہے۔ بھارت بھی اسی طرز پر اپنی فلمی صنعت کو فروغ دیتا رہا اور اب اس کے اداکار دنیا بھر میں اتنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں کہ کئی ملکوں میں ان کے نام سے سڑکیں منسوب ہیں اور وہ ان ممالک میں اعزازی سفیروں کا درجہ رکھتے ہیں۔
پاکستان میں شوبز انڈسٹری ایک طویل عرصے سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہم اپنی ثقافت کو اس طرح دنیا بھر میں روشناس کرانے میں بہت پیچھے ہیں جیسے بھارت کرا رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ سماجی رویہ ہے۔ ہمارے ہاں فلموں میں کام کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ دیگر پیشوں کی طرح یہ بھی ایک پیشہ ہے۔ فن اور فنکاروں کی قدر کریں‘ یہ ہمارے ملک کے سفیر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اُردو فلم بہت عرصہ قبل دم توڑ گئی تھی جبکہ پنجابی فلموں میں کھیتوں میں ناچتی ہوئی ہیروئینوں اور گنڈاسا کلچر نے عوام کو رفتہ رفتہ سینما سے دور کر دیا۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی پنجابی فلم انڈسٹری بھی بہت آگے ہے۔ حال ہی میں سٹریمنگ ویب نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے والی فلم 'چمکیلا‘ گفتگو کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسے پنجابی سنگر کی روداد ہے جس کا نام امر سنگھ چمکیلا تھا۔ وہ اور اس کی بیوی امر جوت‘ دونوں مل کر گانے گایا کرتے تھے لیکن ان دونوں کو تیس سال قبل قتل کر دیا گیا تھا۔ اب تیس سال بعد اس پر مووی بنا کر انہوں اس قتل پر بحث کا آغاز کرا دیا ہے۔ اس فلم کو دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے اور انسٹاگرام پر بھی اس فلم کے گانے ہر دوسری رِیل میں سنائی دیتے ہیں۔ اسی طرح بھارت کی مشہور پنجابی ہیروئین سونم باجوہ کو پاکستان کے ایک برانڈ نے اپنے کپڑوں کی ماڈلنگ کے لیے ہائر کیا ہے۔ دوسری طرف ہمارے پنجابی سینما میں اخلاق باختہ ڈانس‘ عریانی‘ ہیجان انگیز گانوں‘ ذومعنی جملوں اور غیر مناسب لباس کی بھرمار ہی باقی رہ گئی ہے‘ جس نے فلم کو فیملی انٹرٹینمنٹ نہیں رہنے دیا۔ شان اور صائمہ جیسے بہترین اداکاروں کو گنڈاسا کلچر‘ بڑھکوں اور کھیتوں میں ڈانس میں ضائع کر دیا گیا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی پنجاب کے کسی کھیت میں الہڑ مٹیار کو ناچتے نہیں دیکھا‘ نہ ہی کسی گبھرو جوان کو لاچا کرتا پہن کر اونچی اونچی آواز میں للکارتے دیکھا ہے۔ نجانے ڈراموں اور فلموں میں پنجاب کا ایسا کلچر کیوں دکھایا جاتا ہے۔ پنجاب ایسا ہرگز نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں شوبز انڈسٹری اب صرف ڈرامے تک محدود ہو چکی ہے اور کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں بہترین ڈرامہ بنتا ہے مگر ہم اس کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ آسکر یا غیر ملکی ایوارڈز میلوں تک بھی پہنچے ہیں لیکن وہ ان کی انفرادی محنت تھی۔ ان کو حکومتی سرپرستی تک حاصل نہیں ہوتی۔ میں نے کووڈ کے دنوں میں کشمیر پر ہونے والے مظالم پر ٹیلی فلم تحریر کی تھی لیکن پاکستان میں اب کشمیر ایشو پر بات ہی نہیں ہوتی لہٰذا اس سکرپٹ کو فلم کی صورت دینے پر کسی نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ البتہ اس سکرپٹ کو دیکھ کر یہ آفر ضرور آئی کہ کوئی ساس بہو سکرپٹ لکھ دیں‘ اس پر ڈرامہ بنا دیں گے مگر میں نے معذرت کر لی۔ آپریشن سویفٹ ریٹورٹ پر بھی ایک سکرپٹ لکھ رہی تھی مگر اس کو بھی روک دیا کہ پاکستان میں تاریخ‘ حب الوطنی اور اہم واقعات پر فلمیں اور ڈرامے بنانے کا فقدان ہے۔ ڈرامہ انڈسٹری میں ساس بہو اور گھریلو سازشوں وغیرہ ہی پر فوکس رکھا جاتا ہے۔ دیگر موضوعات شاید ان کی ترجیح ہی میں نہیں ہیں۔
جب نیٹ فلیکس پر میں نے بھارت کی فلم آرٹیکل 370 کا ٹریلر دیکھا تو بہت افسوس ہوا کہ کاش میری ٹیلی فلم بھی بن جاتی تو ثقافتی یلغار کا کچھ مقابلہ کر رہی ہوتی۔ بھارت کی فلم انڈسٹری بہت بڑی ہے جو آج کل محض تاریخ کو مسخ کر رہی ہے اور ہمارے ملک میں جاری سیاسی بحران میں کسی کی اس طرف توجہ ہی نہیں کہ بھارت میں جو بھی نئی فلمیں‘ ڈرامے اور سیزن ریلیز ہو رہے ہیں‘ ان میں پاکستانی‘ کشمیری‘ افغان اور مسلم حکمرانوں کو کس طرح دکھایا جاتا ہے۔ پاکستان‘ پاک فوج اور ایئر فورس کو لے کر بھی حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ کسی نے اس حوالے سے بیان تک دینا گوارا نہیں کیا اور مجھے معلوم ہے کہ جب تک سیاسی عدم استحکام رہے گا‘ کوئی بھی اس طرف توجہ نہیں دے پائے گا۔
پہلے سوشل میڈیا صارفین کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے طور پر ایسی منفی مہمات کا توڑ کرتا رہتا تھا لیکن اب وہ بھی خاموش ہے اور وجہ ہم سب کو معلوم ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت کی ایک فلم 'فائٹر‘ ریلیز ہوئی ہے جس میں پلوامہ حملے‘ 26 اور 27 فروری 2019ء اور ونگ کمانڈر ابھینندن کے حوالے سے تمام حقائق کو ہماری آنکھوں کے سامنے بدل دیا گیا ہے۔ نفرت اور تعصب پر مبنی یہ ایسی فلم ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس میں تکنیکی غلطیاں‘ حقائق کی تبدیلی‘ جھوٹ اور نفرت اپنے جوبن پر ہیں۔ ایک فلم 'ویڈنگ گیسٹ‘ کے نام سے ریلیز ہوئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک برطانوی لڑکا پاکستان میں آتا ہے اور ایک پاکستانی لڑکی کو آرام سے اغوا کرکے بھارت لے جاتا ہے۔ اس میں ایسی منظر کشی کی گئی ہے گویا پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ پاکستان ہی ان کی فلموں کا مرکز کیوں ہے؟ نیٹ فلیکس پر پابندی اس کا حل نہیں بلکہ ویب انتظامیہ سے بات کی جائے کہ پاکستان دشمنی پر مبنی مواد کو اَپ لوڈ نہ کیا جائے۔ پاکستان کی موویز اور سیزنز کو بھی نیٹ فلیکس پر جگہ ملنی چاہیے۔ جودھا اکبر ‘ پانی پت اور پدماوت جیسی فلموں کے ذریعے احمد شاہ ابدالی‘ علا الدین خلجی اور دیگر مسلم حکمرانوں کی زندگی اور تاریخ کو بالی وڈ نے جیسے چاہا‘ مسخ کر دیا۔ ابھی ہیرا منڈی کے نام سے ایک سیزن نیٹ فلیکس پر ریلیز ہوا ہے۔ یہ لکھنؤ کی کہانی تو ہو سکتی تھی لیکن ایک فرضی کہانی کو لاہور کا کہہ کر فلمایا گیا ہے۔ جب اس فلم کی ایک مرکزی کردار عالم زیب نے کہا کہ ان کو خانا (کھانا) بنانا نہیں آتا‘ تو مجھے سکرپٹ اور ڈائیلاگ ڈلیوری کے کمزور ہونے کا اندازہ ہو گیا۔ مگر اس کے باوجود ہمارے ہاں لوگ اس کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس دیکھنے کو پاکستانی کانٹینٹ ہے ہی نہیں۔ پاکستانی شوبز انڈسٹری کی عالمی فورمز تک رسائی نہیں ہے اور جس ملک میں رابطے‘ پیغام رسانی اور بحث و مباحثے کے فورم بند ہوں‘ وہاں کیا بات کی جائے۔ اگر ہماری اشرافیہ نے بدلتے حالات کے ساتھ خود کو تبدیل نہ کیا تو ہمارا ملک بہت پیچھے رہ جائے گا۔ اب جنگیں میدانوں میں نہیں ہوتیں‘ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے ذریعے لڑی جاتی ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا پر پابندیوں سے کچھ نہیں ہوگا‘ خود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ شوبز اور کمیونیکیشن کے میدان میں ہم پیچھے کیوں ہیں‘ اس کا جواب اشرافیہ ہی دے سکتی ہے‘ ورنہ نئی نسل میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جس میں ملک پے آوٹس اس وجہ سے نہ آ سکتے ہوں کہ پے پال سٹرائپ موجود نہیں ہے اور لاکھوں ڈالرز کا زرمبادلہ ضائع ہو رہا ہو‘ وہاں ہم نیٹ فلیکس کی یلغار کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟