اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم نعمت سے نوازا ہے‘ اس نعمت کا نام پاکستان ہے۔ ایسی نعمت کی قدردانی کیسے کریں‘ اس کی حفاظت کس طرح کریں‘ اس کا طریقہ اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ نے بتا دیا ہے۔ فرمایا ''اللہ کی حدوں کی پاسبانی کرنے والوں اور ان حدود میں مداخلت کرکے(نظام کو برباد کرنے والوں) کا معاملہ ایسے لوگوں کا سا ہے کہ جنہوں نے ایک کشتی (بحری جہاز) میں سفر کے لیے قرعہ اندازی کا فیصلہ کیا‘ اب کچھ لوگ اوپر چلے گئے اور کچھ لوگ نیچے چلے گئے۔ وہ لوگ جو نیچے کی منزل میں تھے‘ وہ پانی کی خاطر اوپر جاتے اور ان (اوپر والوں) کے پاس سے گزرتے تو (ان کے آنے جانے اور پانی کے گرنے کی وجہ سے) اوپر والے تکلیف محسوس کرتے۔ نیچے والوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصے میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو کوئی تکلیف نہ دیں (نیچے والوں میں سے ایک نے کلہاڑا پکڑا اور جہاز کے فرش کو توڑ کر اس میں سوراخ کرنے لگ گیا)۔ اب اگر اوپر والے لوگ اس شخص کا ہاتھ پکڑ لیں گے تو ان لوگوں کو بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے اور اپنے آپ کو بھی غرق ہونے سے بچا لیں گے اور اگر اوپر والوں نے ان لوگوں کو چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کر دیں گے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کر ڈالیں گے‘‘۔ (متفق علیہ)
اے اہلِ پاکستان! جس عظیم اور آخری رسولﷺ کی حکمرانی کے دن اہلِ مدینہ نے دیکھے تھے‘ ان کا حال احادیث کی کتابوں اور سیرت کے شہ پاروں میں ملاحظہ کرو کہ حضورﷺ کا نظام کس قدر عادلانہ‘ شفاف اور صاف تھا۔ اہلِ اخلاص کے لیے رحمت ہی رحمت تھا تو اشرار کے لیے تازیانہ بھی تھا۔ اور یہ تازیانہ برسا تو سرِعام برساتا کہ چھپے ہوئے اشرار کے لیے عبرت کا پیمانہ ہو۔ قارئین کرام! حضورﷺ نے جس جہاز کی مثال دی‘ یہ سمندر پر چلنے والا جہاز نہیں کیونکہ سمندر کا پانی پینے اور دیگر استعمال کے قابل نہیں ہوتا‘ مذکورہ جہاز بڑے دریائوں پر چلنے والا جہاز ہے۔ مجھے ایسے جہاز میں سفر کے متعدد مواقع میسر آئے ہیں۔ روس کے علاقے تاتارستان کے دارالحکومت قاران سے سینکڑوں لوگوں کے ہمراہ میں کوئی پانچ منزلہ جہاز میں سوار ہوا اور پانچ دن اور پانچ راتوں کا سفر طے کرکے آستراخان پہنچا۔ یہ دریائے وولگا (Volga) تھا جس کا پانی ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ یہ دریا بعض جگہ چھ کلو میٹر تک چوڑا تھا۔ بھارت کے بڑے دریا گنگا اور جمنا بنگلہ دیش میں جس جگہ باہم ملتے ہیں‘ وہاں ان کی چوڑائی بارہ کلو میٹر تک ہو جاتی ہے۔ میں اسے بھی ایک بحری جہاز میں پار کر چکا ہوں۔
ہم لوگوں نے پاکستان کو ''لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر بنایا۔ حضور نبی کریمﷺ اپنے فرمان کے ذریعے ہماری رہنمائی فرما رہے ہیں کہ مل جل کر رہو‘ ایک دوسرے کی ضروریات کا پاس کرکے زندگی گزارو گے تو کامران رہو گے۔ حضرت امام محمد بن اسماعیل البخاریؒ مندرجہ بالا حدیث کو‘ جسے ''حدیث سفینہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے '' کتاب الشرکۃ‘‘ میں لائے ہیں یعنی زندگی شراکت داری سے بسر ہوتی ہے۔ میں میں اور میری میری کی رٹ سے زندگی مرجھانا شروع ہو جاتی ہے جبکہ '' میری اور تیری‘‘ بلکہ ''تیری اور میری‘‘ کی سانجھ داری اور شراکت داری سے زندگی مسکرانا شروع کر دیتی ہے۔ اب ہمیں فیصلہ کر لینا چاہئے کہ ہمیں موت کے گھاٹ پر جھولنا ہے یا کہ زندگی کے گلستان میں لگے جھولوں پر جھولنا ہے؟ یہ تبھی ممکن ہے جب ہر شخص اور ہر گروہ اپنی حد میں‘ اپنے دائرہ کار میں رہے۔ عدلیہ کے چند ججز خط لکھ رہے ہیں کہ ان کے دائرہ کار میں مداخلت ہو رہی ہے جبکہ عدلیہ کے بعض فیصلوں کو انتظامیہ کے لوگ نشانہ بنا رہے ہیں کہ یہ ان کے کام میں مداخلت ہے۔ اداروں کے ایسے رویے ان کے وقار کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ ہمارے پیارے رسول گرامیﷺ کی حدیث شریف وارننگ دے رہی ہے کہ ملکی جہاز کی انتظامیہ کے لوگ آگے بڑھیں اور ایسے ہاتھوں کو پکڑ لیں کہ جن کے ہاتھوں میں کلہاڑے ہیں۔ انہوں نے اگر ہاتھ نہ پکڑا تو سب ڈوب جائیں گے مگر جنہوں نے ایسے ہاتھوں کو پکڑنا ہے‘ وہ ہاتھ عادلانہ ہوں۔ ایسے عادلانہ کہ وہ جس ہاتھ کو بھی پکڑیں‘ اس سے پاک وطن کی فضا عدل کی خوشبو سے بھر جائے۔
پُرامن احتجاج ہر پاکستانی کا حق ہے مگر ریاست کے خلاف بات کرنا ہاتھ میں کلہاڑا پکڑنے کے مترادف ہے۔پرچم کی توہین ہاتھ میں کلہاڑا تھامنا ہے۔ علیحدگی کی بات کرنا جہاز پر کلہاڑے کا وار ہے۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا کلہاڑا چلانا ہے۔ سرکاری گاڑیاں جلانا اور باوردی جوانوں کی جان کے درپے ہونا ملکی جہاز کے تختوں پر کلہاڑے کا شدید وار ہے کہ جس پر 25 کروڑ افراد سوار ہیں۔ کوئی اوپر والی منزلوں میں ہے کہ جہاں میٹھا پانی دستیاب ہے‘ دریا بہہ رہے ہیں‘ ڈیم بنے ہوئے ہیں۔ گلگت‘ بلتستان‘ کشمیر‘ خیبر پختونخوا اوپر کی منزلیں ہیں۔ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان نیچے کی منزلیں ہیں۔ یعنی اوپر کی منزلوں کے تین حصے ہیں تو نیچے کی منزل کے بھی تین حصے ہیں‘ یوں بنیادی طور پر پاکستان کے جہاز کی بھی دو منزلیں ہیں۔ ان منزلوں کے لوگ اپنے اپنے علاقے کی سوغات کو اکٹھا کرکے کھائیں گے تو برکتوں کے نظارے کریں گے۔ اے اہلِ پاکستان! اس وقت ہمارا جہاز معاشی اور سیاسی بھنور کی تندو تیز لہروں کی زد میں ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ باہم لڑنے کے بجائے لٹیروں کے ہاتھوں کو پکڑیں۔ اس پاک جہاز کا مال لوٹنا‘ اس جہاز میں سوار 25 کروڑ مسافروں کے سامان پر ہاتھ صاف کرنا‘ ان کی گندم کو لوٹنا جہاز کو ڈبونے کے لیے کلہاڑا چلانے جیسا ہے۔ جن جن لوگوں کے ہاتھوں سے یہ کلہاڑا چلا‘ ان کو سرعام سزا دی جائے تو جہاز سلامتی اور امان میں آ جائے گا۔ ان لوگوں کی اندرون اور بیرونِ ملک جائیدادوں کو ضبط کر کے ملکی نقصان کا ازالہ ہو جائے تو سبحان اللہ! اس سے جہازمحفوظ ہو جائے گا۔
امام بخاریؒ ''کتاب الشرکۃ‘‘ میں جو پہلی حدیث شریف لائے ہیں اس کا اختصار یوں ہے کہ حضورﷺ کی مدنی ریاست کو محفوظ رکھنے کے لیے تین سو سواروں کا ایک لشکر ساحلی علاقے کی جانب روانہ ہوا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اس لشکر کے کمانڈر تھے۔ یہ لشکر ابھی راستے ہی میں تھا کہ خوراک ختم ہو گئی۔ لشکر کے کمانڈر نے حکم دیا کہ تمام لوگ اپنی خوراک کو ایک جگہ جمع کریں‘ یوں کھجوروں کے دو بڑے بورے بھر گئے۔ لشکر اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا۔ وہ لوگ جو مدینہ منورہ کے لیے خطرہ تھے‘ وہ اس لشکر کو اپنے علاقے میں دیکھ کر سیدھے ہو گئے۔ لشکر کے شیروں پر وہ وقت بھی آیا کہ ہر لشکری کو روزانہ صرف ایک کھجور ملتی تھی۔ پھر وہ بھی ختم ہو گئیں‘ تب یہ لشکر سمندر کے ساحل پر تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بحرِ احمر کی لہروں نے ایک بڑی مچھلی کو اٹھا کر ساحل پر پھینک دیا۔ اس مچھلی کو اہلِ لشکر نے یہاں قیام کے کئی دن تک کھایا۔ پورے علاقے میں ریاست کی رٹ بھی قائم ہو گئی۔ مچھلی کو واپسی کے راستے میں بھی کھایا اور حضورﷺ کے لیے بھی لے کر گئے۔ یہ مچھلی اتنی بڑی تھی کہ اس کی پسلیوں کی دو ہڈیوں کو کھڑا کیا گیا اور درمیان سے کجاوے پر بیٹھا سوار اونٹ کو لے کر گزرا تو اس کے سر سے اب بھی پسلی کی ہڈیاں اوپر تھیں۔ جی ہاں! اس لشکر کے جرنیل کو حضورﷺ نے ''امت کا امین‘‘ قرار دیا تھا‘ یہ دیانت کا تمغہ نبوی تھا۔ اے اللہ کریم! ہمیں بھی اس تمغے کی چھائوں عطا فرما‘ آمین!
محترم قاری عمر جٹھول‘ جو میرے دوست ہیں‘ نے گندم چوروں کو بے نقاب کرنے کے لیے خاموشی سے کافی کام کیا ہے۔ وزیراعظم نے دو ذمہ داروں کو معطل بھی کیا ہے۔ اللہ کرے انہیں سزا بھی ملے اور کسانوں کو معاوضہ بھی۔ اور ہاں! وہ شیر جوان جو پاکستانی جہاز پر کلہاڑا چلانے والوں کے ہاتھ پکڑتے ہوئے اپنا پاک لہو بہاتے ہیں‘ ان پر کالم پھر سہی کہ ایسے شیر دل دلاوروں کی قربانیوں ہی سے میرے دیس کا جہاز بحفاظت رواں دواں ہے‘ الحمدللہ!