دبائی چلو اور دبئی چلو ہم معنی ہیں۔ چند دن پہلے ایک ادارہ‘ جسے دنیا بھر کے صحافی چلاتے ہیں‘ جس کا مقصد جرائم اور جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کا کھوج لگا کر ان کے کردار اور عوام سے لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنا ہے‘ ایک رپورٹ سامنے لایا ہے۔ پہلے تو ان صحافیوں کو‘ جن میں کچھ پاکستان سے بھی شامل ہیں‘ خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے اور ان کی جرأت کی بھی داد دینا ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے خطرات کے باوجود مالیاتی جرائم میں ملوث طاقتور افراد کی چھپی ہوئی دولت کا پتا لگاتے ہیں۔ کمزور ریاستوں میں حکومتی طاقت اور ناجائز دولت کا گہرا تعلق ہے۔ میں اپنے ملک کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں‘ آپ خود ہی سمجھدار ہیں۔ طاقت اور دولت کے حلقے ساتھ ساتھ ہیں۔ متوازی انداز میں نہیں بلکہ ماربل کیک (تہہ در تہہ) کی طرح جس میں رنگ برنگی سطحیں ایک دوسرے کا ذائقہ بڑھاتی اور سہارا دیتی ہیں۔ اکثر ایسے ممالک کے حکمرانوں کا ایک مسئلہ بھی رہا ہے کہ اکٹھی کی ہوئی دولت کو دنیا کے کس کونے میں خفیہ خزانوں میں رکھا جائے تاکہ عوام کو خبر نہ ہو سکے۔ اس کے لیے مہارت درکار ہوتی ہے۔ کچھ تو خود ہی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اوپر کی آمدن کو صحیح جگہ پر ٹھکانے لگانے کے ہنر میں طاق ہو چکے ہوتے ہیں۔ طاقتور لوگ بڑی دولت کا حساب کتاب رکھنے‘ اُسے ایک ملک سے دوسرے میں غیرمعروف راستوں سے منتقل کرنے‘ یعنی منی لانڈرنگ‘ جسے کالے دھن کو سفید کرنے کا طریقہ کہتے ہیں‘ کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ممالک کی بھی کمی نہیں جہاں قوانین‘ مالیاتی ادارے اور وہاں کے حکمران اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ زرِمبادلہ کہاں سے آ رہا ہے‘ کون لا رہا ہے اور کیسے لا رہا ہے۔
سوئٹزرلینڈ سنا ہے کہ بہت خوبصورت ملک ہے۔ کسی نے اپنے علاقے کے جنگلات‘ پہاڑیوں‘ خوشگوار موسم اور فطری رنگینیوں کی بات کرنی ہو تو اس ملک کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے۔ لیکن طویل عرصے سے حکمرانوں کے لیے اس کی کشش قدرتی نظاروں سے بڑھ کر وہاں کے مالیاتی اداروں کے قواعد و ضوابط رہے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ ادارے خود سے تو قانون نہیں بناتے‘ سیاسی حکومت بناتی ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے چھوٹے ممالک کی پالیسی دیکھنے میں یہ آئی ہے کہ آپ کی آبادیوں کے لیے روزگار کے مواقع ملیں اور حکومت کے خزانے بھی بھرتے رہیں۔ پُرکشش ماحول بنانے کے لیے بھی عالمی سطح پر ماہرین اور ان کے آزمودہ فارمولوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہر ملک اپنے محلِ وقوع‘ موسم اور قدرت کے عطا کردہ فطری وسائل کے مطابق اپنی حکمتِ عملی وضع کرتا ہے۔ اس کے ساتھ مالیاتی اداروں اور حکومتی قوانین میں گنجائش رکھی جاتی ہے کہ جو بھی‘ جتنی بھی اور جہاں سے بھی دولت لائے‘ اس کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کی جائے گی۔ سب کچھ صیغۂ راز میں‘ خفیہ کھاتوں میں اور آپس کی راز داری میں رہنے کا ایک عمرانی معاہدہ پہلے سے طے شدہ حکمرانوں کو جہاز کی سیڑھیاں اُترتے ہی بغیر کسی تحریر کے مل جاتا ہے۔ ہمارے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں کہ دبئی میں صرف چھ ماہ کی مدت میں ایک غیرسرکاری تنظیم نے سینکڑوں ممالک کے شہریوں کی طرف سے جائیداد میں چارسو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا ناقابلِ تردید ریکارڈ دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے کئی ملکوں کے حکمرانوں کے سوئٹزر لینڈ‘ برطانوی جزائر اور پاناما جیسے ممالک کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور بینکوں میں کھاتوں کے کھوجی صحافی سراغ لگا چکے ہیں۔
یہ دھندا ہم نے اپنی زندگی میں کئی ملکوں کے حکمرانوں کی طرف سے اتنی بار ہوتے دیکھا ہے کہ کچھ باتیں ہماری غیر ماہرانہ سمجھ میں آ چکی ہیں۔ کوئی کمپنی رجسٹرڈ کرکے سرمایہ کاری‘ جائیدادوں کی خرید و فروخت اور پھر بینکوں میں کھاتے کھولے جاتے ہیں۔ یہ کمپنی بھی ایک یا کئی کمپنیوں کی ملکیت ہوتی ہے۔ کمپنی در کمپنی کے اس کھیل میں اصل مالکان کے نام پوشیدہ رہتے ہیں‘ مگر کہیں نہ کہیں موجود ہوتے ہیں۔ کوئی سراغ رساں صحافی بات کی تہہ تک پہنچ کر سٹوری لکھ مارے تو تردید کرنا آسان ہوتا ہے کہ یہ کمپنی‘ ہوٹل یا محل ہماری ملکیت نہیں۔ دبئی دیگر چھوٹے ممالک کی نسبت اس کاروبار میں ہزاروں میل آگے رہا ہے۔ بڑی دولت لانے والوں کو ہر نوع کی عیش و عشرت‘ سرمائے کا تحفظ اور رازداری کی ضمانت ملتی ہے۔ کوئی بھی مطلوب شخص کسی ملک کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ حالیہ رپورٹ میں کئی نامور اور مطلوب افراد کے نام سامنے آئے ہیں جنہیں بااثر ممالک بھی اپنی تحویل میں نہیں لے سکتے۔ درخواستیں آتی رہتی ہیں‘ قانونی چارہ جوئی کا دروازہ بھی کھلا ہے مگر ابھی تک سرمایہ اور مطلوب افراد محفوظ ہیں۔ دبئی کی شہرت اب یہ بن چکی ہے کہ جان بچانی ہے تو پھر ڈھیروں سرمایہ لے جائیں‘ اتنا کہ میزبان دیکھتے ہی آپ کی راہ میں سرخ قالین بچھانا شروع کردیں۔ دیگر ایسے ممالک بھی کچھ ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی ناانصافی ہو گی کہ کالے دھن کو ٹھکانے لگانے کے سلسلے میں ہم صرف دبئی کا نام لیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسی چھٹی تو نہیں مگر وہاں سرمایہ پاناما‘ برطانوی جزائر اور دبئی کے بینکوں اور کمپنیوں میں اپنی تمام میل اتار کر صاف ستھرا ہوکر اور نکھر کر داخل ہوتا ہے۔ اگر وہاں کچھ مشکلات حائل ہوں کہ وہاں قانون کی گرفت میں آجائیں تو پھر این آر او نہیں ملتا‘ لیکن سارا سرمایہ غیرملکی کرنسی بن کر پاکستانی بینکوں کے ''بے نام کھاتوں‘‘ میں منتقل ہو جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہم بینک میں کھاتہ کھلوائیں تو منی لانڈرنگ کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی دستاویزات جمع کرانا ضروری ہیں‘ مگر وہ بھی تو ہیں جن کے ''بے نام کھاتے‘‘ گھر بیٹھے کھل جاتے ہیں۔
پاکستانیوں کی دبئی کی جائیدادوں میں سرمایہ کاری‘ جو ابھی تک معلوم ہو سکی ہے کہ بارہ ارب ڈالر ہے‘ یہ سن کر نہ میرے دل کی دھڑکن رکی‘ نہ میں سکتے میں آیا اور نہ کوئی حیرانی ہوئی۔ یہ تو پہلی قسط ہے۔ چھپی ہوئی دولت کا پیچھا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یقین مانیں‘ اپنے عوام‘ انسانیت اور حق گوئی کے لیے صحافیوں اور دانشوروں نے اس میدان میں اپنی زندگیاں کھپا دی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر میں طاقتور لوگوں نے انہیں تلاش کرکے کہیں تو گولیوں سے بھون ڈالا‘ تو کہیں وہ گمنامی میں اذیت خانوں میں سسکیاں لے کر دم توڑ گئے۔ ہمارا سلام ہے ان صحافیوں کو جنہوں نے دنیا بھر کے حکمران طبقات اور ان کے ذیلی کارندوں کے کارناموں کو آپ کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ چلو مان لیتے ہیں جو لوگ اپنے دفاع میں کہہ رہے ہیں کہ ان کی دولت جائز ہے‘ آمدن جائز ہے اور جائز طریقے سے دبئی میں منتقل ہوئی ہے۔ ہم تو کمزور لوگ ہیں۔ کسی کی نیت پر شک نہیں کرتے۔ جو کرتے ہیں‘ وہ بے شک کرتے رہیں مگر اس درویش کا ایک سوال تو بنتا ہے کہ آپ حکمران طبقات میں سے ہیں‘ آپ کا بھی اپنے ملک پر اعتماد نہیں کہ آپ اپنا سرمایہ‘ جائز سرمایہ یہاں رکھیں؟ ہمارا ملک کتنا خوبصورت ہے‘ آپ اپنے محلات یہیں کہیں بنا لیں‘ آپ کو دبئی میں رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ بھی ان سوالوں کا جواب سوچیں‘ میں بھی ان پر غور کرتا رہوں گا۔