اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ایرانی صدر کا دورہ

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا دورۂ پاکستان دونوں ہمسایہ ممالک کے تاریخی تعلقات کے فروغ اور دوطرفہ ترقی و خوشحالی میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ایرانی صدر کے دورے کے پہلے روز صدرِ مملکت اور وزیر اعظم کیساتھ اُن کی ملاقات ہوئی اور دنوں ممالک نے کئی شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔صدر ابراہیم رئیسی کا یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستان اور ایران میں موجودہ تجارتی حجم ناکافی ہے‘ اسے دس ارب ڈالر تک بڑھایا جانا چاہیے۔ پاکستان اور ایران کی موجودہ تجارت کاحجم تقریباً اڑھائی ارب ڈالر کے قریب ہے اور اس میں یقینا نمایاں اضافہ کیا جاسکتاہے کیونکہ دونوں ممالک کے پاس پیداواری صلاحیتیں بھی ہیں اور کھپت کی مارکیٹ بھی۔ دونوں ملکوں کیلئے تجارتی فروغ کا سب سے اہم افادی نکتہ یہ ہے کہ قریبی ہمسایہ ہونے کے ناتے تجارتی مال کی نقل و حرکت کے اخراجات اور وقت کی کافی بچ کی جاسکتی ہے۔تاہم دونوں ملکوں میں بینکنگ چینل کا نہ ہونا تجارتی فروغ کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کے توانائی کے وسائل میں قدرتی گیس کے حصے میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ صنعتی‘ گھریلو اور بجلی کی پیداوار میں گیس کا حصہ توانائی کے دیگر وسائل سے زیادہ ہے جبکہ قدرتی گیس کے ملکی ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے قدرتی گیس کی درآمد کی ضرورت پیش آتی ہے اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن توانائی کا اہم ترین منصوبہ بن کر سامنے آتا ہے جو یومیہ 75کروڑ سے ایک ارب کیوبک فٹ تک گیس فراہم کرسکتا ہے۔ ایرانی صدر کے اس دورے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ضروری ہے کہ توانائی کے اس اہم ترین منصوبے پر بھی بات چیت کو آگے بڑھایا جائے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کو پاکستان کی جانب سے  اس منصوبے پرعملدرآمد میں رکاوٹ کی وجہ قرار دیا جاتا رہا ہے مگر حال ہی میں اس منصوبے پر کام بحال کیے جانے کی پیشرفت خوش آئند ہے۔ توانائی کا بحران پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور ہمسایہ ملک سے اگر توانائی کی ضرورت پوری ہو تی ہے تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟چنانچہ ضروری ہے کہ امریکہ کیساتھ بھی اس معاملے پر بات چیت کی جائے۔اصولی طور پر ایران سے توانائی کی ضرورت پوری کرنے پر کسی کو اعتراض نہیںہونا چاہیے‘ بہرکیف کوئی رکاوٹ ہے بھی توبہتر سفارتکاری سے اسے دور کیا جانا چاہیے۔ پاکستان اور ایران کیلئے دہشتگردی قومی سلامتی کا ایک بڑا مسئلہ ہے ؛چنانچہ دونوں کو اس معاملے میں ورکنگ ریلیشن شپ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انٹیلی جنس شیئرنگ اور سرحدی علاقے میں مشترکہ گشت اور سکیورٹی معاملات میں باہمی تعاون کی دیگر صورتیں دونوں جانب کی سکیورٹی فورسز میں اعتماد بڑھانے کیلئے ضروری ہیں۔ اس سال جنوری میں دونوں جانب جومڈ بھیڑ ہوئی ایسے واقعات باہمی اعتماد کی کمی ہی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ایرانی صدر کا دورہ علاقائی سلامتی کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرقِ وسطیٰ غیر معمولی تناؤ میں ہے اور چھ ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت غزہ میں 35ہزار سے زائد جانیں لے چکی ہے۔ اس بحران کے اثرات دیرپا اور غیر معمولی ہیں اور اس خطے کے دو اہم ممالک اور مسلم دنیا کے اہم رکن ہونے کے ناتے پاکستان اور ایران کا اس معاملے میں مؤقف اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور ایران کو دیگر ملتے جلتے چیلنجز کی طرح منشیات اور انسانی سمگلنگ کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اس معاملے میں بھی دونوں جانب تعاون اصلاحِ احوال میں آسانی پیدا کرسکتا ہے۔ ایرانی صدر موجودہ دورِ حکومت میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہِ مملکت ہیں‘ امید ہے کہ اس تین روزہ اعلیٰ سطحی دورے کے موقع پر دونوں ممالک تعاون اور اعتماد کی نئی راہیں تلاش کریں گے اور یہ شروعات دونوں جانب کے عوام کیلئے خوشحالی اور امن کا سبب بنے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement