اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سرمایہ کاری کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت

وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی وزیر خزانہ کی ملاقات کے اعلامیے کے مطابق دو نوں رہنماؤں نے زراعت‘ صنعت‘ آئی ٹی اور معدنیات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے گفتگو کی اورسعودی وزیر خزانہ نے نجی شعبے کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا۔ پاکستان اور سعودی عرب میں بڑھتے ہوئے معاشی روابط خوش آئند ہیں۔ دونوں ممالک کے تاریخی برادرانہ تعلقات کو معاشی شراکت داری میں بدلنے کی کافی گنجائش موجود ہے۔ ویژن2030ء کے تحت سعودی عرب اپنی معیشت میں تیل کے علاوہ آمدنی کا حصہ بڑھانا چاہتا ہے۔ پاکستان میں زراعت‘ صنعت‘ معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں دستیاب مواقع سعودی عرب کے معاشی مقاصد سے مطابقت رکھتے ہیں؛ چنانچہ دونوں جانب کے حکومتی عہدیداران میں روابط اور معاشی دلچسپی کے سلسلے میں تیزی نظر آ تی ہے۔ اس حوالے سے عملی پیشرفت جلد ممکن بنانے کیلئے سرمایہ کار فریق کے علاوہ خود ہماری اپنی ذمہ داریاں بھی ہیں‘ جن سے آگاہی اورسنجیدگی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ امن و امان کی صورتحال کی بہتری یقینا ایک اہم چیز ہے اور سرمایہ کاری کے مقاصد سے اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران جس طرح ترقیاتی منصوبوں پرکام کرنے والے چینی کارکنوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا‘ ایسے واقعات ملکی تشخص کیلئے نقصان دہ ہیں۔ سرمایہ کاری پُرامن ماحول میں فروغ پاتی ہے؛ چنانچہ امن و امان یقینی بنانے کیلئے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہو گی۔ملکِ عزیز میں صنعتکاری‘ زراعت‘ آئی ٹی‘ سیاحت‘ توانائی کی پیداوار‘ معدنیات‘ غرض سرمایہ کاری کیلئے پُر کشش شعبوں کی اتنی بڑی ورائٹی ہے کہ اس خطے کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہو گی۔ زراعت کے شعبے میں کوئی سرمایہ کاری کرنا چاہے تو پاکستان اس کیلئے بھی وافر واقع مہیا کر سکتا ہے۔ اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری اس لحاظ سے بھی فائدہ مند ہو گی کہ نئی سرمایہ کاری کے ساتھ جدید رجحانات بھی متعارف ہوں گے۔ صنعتی شعبوں میں بھی بہت سے امکانات موجود ہیں۔ سی پیک کے اکنامک زونز نئی صنعتوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ گیس اور بجلی کی قلت اور مہنگائی کے مسائل کا سامنا ہے۔ سیاحت کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں‘ تاہم اربوں ڈالر کے اس شعبے کی صلاحیت سے پوری طرح اسی صورت فائدہ اٹھایا جا سکتا اگر ملک میں امن و امان کی حالت بہترین ہو۔جہاں تک معدنیات کے شعبے کی بات ہے تو سردست یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کشش زیادہ ہے‘ تاہم یہاں بھی امن و امان کی بہتر صورتحال یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ ہمیں ملکی سطح پر سیاسی ہم آہنگی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی انتشار کے ماحول میں ملک کی معاشی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ممکن نہیں۔معاشی ماہرین خبر دار کر چکے ہیں کہ قرضوں کا حجم خطرے کے نشان سے اوپر نکل چکا ہے۔ پاکستان کے قرض جی ڈی پی کے 70 فیصد سے بڑھ چکے ہیں اور ان قرضوں کا سود دینے کیلئے بھی نئے قرضوں کی ضرورت ہے۔ ہر حکومت کی پہلی ترجیح نئے قرضوں کا بندوبست ہوتا ہے  مگر بڑھتے ہوئے قرضوں کے ساتھ قرض دہندگان کی شرائط کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے‘ یوں مہنگائی بڑھتی اور معاشی تنگی شدت اختیار کرتی ہے۔ اس وقت ملک عزیز اس کی کلاسیکل مثال ہے‘ جہاں کاشت کار غلہ لیے بیٹھا ہے مگر حکومت کے پاس خریدنے کو روپیہ نہیں۔ توانائی کا بوجھ عوام کی کمر توڑ رہا ہے اور حکومت ابھی مزید ٹیکس لگانے کا عندیہ دے رہی ہے۔ یہ حالات معاشی طور پر تباہ کن ہیں اور اس میں بچاؤ کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ قومی وسائل کو درست طور پر استعمال کیا جائے۔ ملک میں سرمایہ کاری کے جو مواقع دستیاب ہیں ان سے کام لیا جائے۔ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے سنجیدہ اور مخلصانہ اقدامات کیے جائیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement