اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئی کیوب قمر‘ ایک بڑا قدم!

آئی کیوب قمر‘ پاکستان کی خلائی تحقیقات میں ایک اہم قدم ہے۔ بیشک یہ چھوٹا سیٹلائٹ ہے‘ جس کی طبعی عمر تین ماہ ہے‘ مگر چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے خلانورد نیل آرمسٹرانگ کے الفاظ میں یہ چھوٹا قدم پاکستان کی خلائی صلاحیتوں کیلئے کسی لمبی چھلانگ سے کم نہیں۔ ملکِ عزیز کو یہ موقع فراہم کرنے پر عوامی جمہوریہ چین کا شکریہ کہ جس کی پیشکش اور تکنیکی معاونت سے یہ خواب تعبیر کو پہنچا اور پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو ا۔ ان میں امریکہ‘ روس‘ چین‘ یورپی یونین‘ جاپان اور بھارت شامل ہیں جبکہ چینی راکٹوں کی مدد سے جنوبی کوریا اور اٹلی بھی اپنے مشن بھیج چکے ہیں۔ مجموعی طور پر اسے ایک بڑی پیشرفت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے‘ جس نے ہمارے ماہرین اور متعلقہ اداروں کیلئے نئی راہیں کھول دی ہیں۔ سائنسی شعبے میں کسی عمل کے انجام دینے اور نہ دینے کے درمیان جو پردہ حائل تھا اس کا اُٹھ جانا صحیح معنوں میں امکانات کے نئے جہان وا کر دیتا ہے۔ اگر چین کی نیشنل سپیس ایجنسی نے ایشیا پیسفک سپیس کوآپریشن آرگنائزیشن کے توسط سے رکن ممالک کو یہ پیشکش نہ کی ہوتی یا اس بابت پاکستان انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کی تجاویز کو قبول نہ کیا جاتا تو ہمارے خلائی ادارے کے قابل اساتذہ اور ہونہار طلبہ کو اپنا ہنر آزمانے کا موقع نجانے کب ملتا۔ اس مشن کے جو اہداف مقرر ہیں ان میں چاند کے مدار میں چینی خلائی گاڑی چیننگ 6 سے کامیابی کے ساتھ علیحدگی اور چاند گاڑی میں نصب کیمروں کی مدد سے اس عمل کی تصویر کشی‘آئی کیوب کا چاند گاڑی‘ زمین اور چاند کی تصاویر لینا‘ قمری مقناطیسی فیلڈ کا ڈیٹا جمع کرنا اور چاند پر تحقیقات کے حوالے سے پاکستان کیلئے بین الاقوامی تعاون کی بنیاد رکھنا۔ پاکستانی قوم یقینا بڑی دلچسپی کے ساتھ اس قمری مشن کی سرگرمیوں کو دیکھے گی۔ ملک کے سائنسی حلقوں کیلئے یہ اس سے بھی زیادہ دلچسپی کا موجب ہو گا۔خلائی تحقیقات میں پاکستان کی تاریخ شاندار ہے تاہم دیگر بہت سے شعبوں کی طرح یہاں بھی تسلسل قائم نہیں رکھا جاسکا۔ یوں ایک ایسا ملک‘ جو ایشیا میں راکٹ پروگرامز کا سرخیل شمار ہوتا تھا‘ خلائی تحقیقات کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا۔ پاکستان کا خلائی سائنس کا ادارہ سپارکو 1960 ء میں قائم ہوا تھاجبکہ اس کا بھارتی مد مقابل اِسرو 1969ء میں‘ مگر دونوں اداروں کی کارکردگی میں طویل فاصلہ ہے۔ بھارت اپنے بنائے ہوئے راکٹ سے مریخ پر مشن بھیج چکا ہے اورگزشتہ برس چاند پر تیسرے مشن کی کامیاب لینڈنگ کر چکا ہے۔ سپارکو کیلئے ان مقاصد کے حصول میں ابھی بہت سا فاصلہ ہے‘ مگر یہ اسی صورت طے ہو سکتا ہے جب حکومتیں علمی ترقی اور سائنسی تحقیقات کو اپنی ترجیح اول بنائیں۔جوہرِ قابل کا حصول پاکستان کا مسئلہ نہیں‘ ہمارے ماہرین اور محققین نے اپنے ملک و قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ کم وقت اور محدود وسائل کے ساتھ آئی کیو ب قمر کی تخلیق کرنے والے بھی اسی دھرتی کے سپوت ہیں اور ان کے پیشرو جنہوں نے اُس وقت یہاں راکٹ سائنس کی بنیاد رکھی تھی جب یہ ٹیکنالوجی خال خال ملکوں کے پاس تھی اور ’راکٹ سائنس‘ غیر معمولی اور مشکل ترین کے مترادف کے طور پر محاورتاً استعمال ہوتا تھا۔ مگر جوہرِ قابل کیا کر سکتا ہے اگر اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاناحکومتوں کی دلچسپی ہی میں شامل نہ ہو۔یہ دلچسپی کا فقدان تعلیمی بجٹ اور تحقیقی اداروں کے لیے حکومتی گرانٹس کی صورت میں نظر آتی ہے‘ جو ملک عزیز میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالیہ برسوں میں ایسا کئی بار ہوا کہ ملک کی کئی یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے فنڈز نہ تھے۔ نئے پروگرام شروع کرنے‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگوں کو دنیا جہاں سے پاکستان کے تعلیمی و تحقیقی اداروں میں لانا‘ یہ سب حکومتی دلچسپی اور سرمایہ کاری کے بغیر کیونکر ممکن ہے؟

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement