"KMK" (space) message & send to 7575

خواہش کرنے میں کیا حرج ہے؟

یہ کسی طور ممکن ہی نہیں کہ پاکستانی ہوں اور سیاسی گفتگو نہ کریں‘ اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اوورسیز پاکستانی ہوں اور وہ کسی پاکستانی سیاسی پارٹی سے ہمدردی نہ رکھتے ہوں۔ یہ لفظ ہمدردی میں نے رعایتاً لکھا ہے وگرنہ یہ ممکن نہیں کہ اوورسیز پاکستانی اپنی اپنی سیاسی پارٹی اور اپنے اپنے لیڈر کے ساتھ اندھی محبت اور غیر مشروط تقلید میں مبتلا نہ ہوں۔ پھر ان میں مزید تفریق کریں تو عمران خان کے چاہنے والے اس سلسلے میں جتنے جارح مزاج ہیں‘ دیگر کسی پارٹی یا لیڈر کی محبت میں مبتلا سپورٹر عمران خان کے مریدوں کے پاسنگ بھی نہیں۔ اس دو طرفہ شدت پسندی کی وجہ سے کم از کم میں نے مغربی ممالک میں بھی پاکستانیوں کے درمیان سیاسی بحث کا اختتام ہمیشہ بدمزگی اور خاصی بدکلامی کی صورت میں دیکھا ہے لیکن جنوبی افریقہ میں رہنے والے پاکستانیوں کا رویہ دیگر ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں سے مختلف ہے اور نہ صرف یہ کہ میں نے سیاسی گفتگو کے دوران کسی کو بھی تحمل کا دامن چھوڑتے نہیں دیکھا بلکہ سیاسی تقسیم کو باہمی تعلقات میں رکاوٹ بنتے بھی نہیں دیکھا۔
ایک دوست کے ساتھ تھوڑی دیر کیلئے ایک ایسی جگہ پر جانا پڑا جو نہ صرف ایک سیاسی جماعت کے مقامی لیڈر کا ڈیرہ تھا بلکہ پارٹی کا دفتر بھی تھا مگر وہاں پاکستان کی تین سیاسی پارٹیوں کے مقامی لیڈر موجود تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ خوشدلی سے سیاسی چٹکلے بھی چھوڑ رہے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر از حد خوشی ہوئی اور حسرت بھی کہ آخر یہ رویہ دیگر ممالک میں رہائش پذیر پاکستانی کیوں نہیں اپنا سکتے؟ میں ایسی ہر مجلس میں یہ بات کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اب آپ لوگوں نے تو واپس پاکستان جانا نہیں اور آپ کے بچوں کے واپس جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر آپ پاکستان کی سیاست میں فضول کی سر پھٹول کرنے کے بجائے مقامی سیاست میں کیوں حصہ نہیں لیتے؟ آپ کا مستقبل اس ملک سے وابستہ ہے اور آپ کو ادھر کی سیاست میں اپنا مستقبل بنانا چاہیے نہ کہ آپ پاکستانی سیاست کی بنیاد پر آپس میں تفرقہ ڈالیں اور اپنی اجتماعی طاقت کو فضول قسم کے اختلافات کی بنیاد پر پارہ پارہ کر یں۔
نو مئی والے دن ایک ایسی ہی محفل میں کسی نے سوال کیا کہ نو مئی والے واقعے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں وہاں اب میرے یا آپ کے خیال کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہ گئی۔ ابھی تک نو مئی کی بہت سی پرتیں کھلنی باقی ہیں۔ لیکن نہ کسی کو یہ پرتیں کھولنے کی جرأت ہے اور نہ ہی ہمت ہے۔ اُس روز جو کچھ ہوا اس کی کسی صورت نہ تو حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی بھی جواز قابلِ قبول ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سب کچھ واقعی اسی طرح ہوا ہے جس طرح اس کی تشریح کی جا رہی ہے؟ ایک ایک بندے پر ایک ہی دن میں کئی کئی شہروں میں ایک ہی الزام میں کئی کئی ایف آئی آر درج ہیں اور کسی کو یہ توفیق نہیں ہو رہی کہ وہ اس بارے میں کوئی سوال کرے اور اسے اس کا جواب مل سکے۔ دنیا بھر میں شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے لیکن یہ ایسا معاملہ ہے جس میں ملزمان کو شک کی بنیاد پر رگڑا جا رہا ہے۔
میری تو صرف اتنی درخواست ہے کہ جس طرح اس واقعے کو ملک دشمنی کے الزام میں نمونۂ عبرت بنایا جا رہا ہے دیگر ملک دشمن عناصر کو بھی اسی طرح نشانِ عبرت بنایا جائے۔ جتنا زور ان ملزمان کے خلاف لگایا جا رہا ہے اتنا زور اس ملک کی بنیادیں کمزور کرنے والے دیگر ملزمان کی سرکوبی پر بھی لگایا جائے۔ میری جنوبی افریقہ آمد سے چند روز قبل ملتان میں 70 ہزار لٹر سمگل شدہ ایرانی پٹرول اور ڈیزل پکڑا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ 70 ہزار لٹر پٹرول پاک ایران بارڈر سے ملتان تک کس طرح پہنچا؟ اور یہ کوئی پہلا واقعہ تو نہیں۔ ملتان میں کئی پٹرول پمپ صرف اور صرف ایرانی سمگل شدہ تیل کے سر پر چل رہے ہیں۔ ملک کے دیگر شہروں میں بھی یہی حال ہے۔ ہر شہر میں ایرانی سمگل شدہ تیل آ بھی رہا ہے اور دھڑلے سے بک بھی رہا ہے۔ صرف ملتان میں روزانہ ہزاروں لٹر ایرانی تیل آتا ہے اور فروخت ہوتا ہے۔ اس سمگل شدہ تیل کے باعث ہر دوسرے دن دیوالیہ ہو جانے سے بچ جانے کی خوشخبری سنانے والے ملک کی سرکار کو ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ پورے ملک کا حساب لگایا جائے تو اس ٹیکس چوری کا ٹوٹل بلا مبالغہ اربوں ڈالر کے مساوی ہے۔ کسی سمگلر‘ کسی ٹیکس چور اور کسی سہولت کار‘ جو اس ملک کی معاشی بنیادوں کو تباہ کر رہے ہیں‘ کے ساتھ آخر وہ سلوک کیوں نہیں کیا جاتا جو نو مئی والے ملک دشمنوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے؟ ملک دشمن تو ملک دشمن ہے۔
ایک صاحب کہنے لگے کہ آخر یہ حکومت کچے کے ڈاکوؤں کو ابھی تک نکیل کیوں نہیں ڈال سکی؟ کہنے کو تو ہم بزعم خود نہ صرف عالمِ اسلام کی سب سے بڑی قوت ہیں بلکہ اس کے ٹھیکیدار بھی ہیں لیکن عالم یہ ہے کہ راجن پور سے لے کر کشمور تک کا علاقہ نوگو ایریا بن چکا ہے اور سرکار اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہی۔ ہر چند ماہ بعد ان ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع ہوتا ہے۔ ان کی کمین گاہیں اور پناہ گاہیں تباہ کرنے کی خوشخبری ملتی ہے۔ اس علاقے میں چوکیوں کے قیام کی خبر آتی ہے اور چند ماہ بعد علم ہوتا ہے کہ سارا سلسلہ دوبارہ وہیں سے شروع ہو رہا ہے جہاں سے ہر بار شروع ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ چند ماہ قبل جب میں ڈاکٹر عنایت کے ساتھ خیرپور میں واقع مہرانو وائلڈ لائف سینکچری دیکھنے گیا تھا تو ترنڈہ محمد پناہ کے آگے والے سروس ایریا میں ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ ''کیا آپ اغوا ہونے جا رہے ہیں؟‘‘ اس کے نیچے پولیس کی طرف سے خاص و عام کو اطلاع دیتے ہوئے انتباہ کیا گیا تھا کہ آپ نوکری کے جھانسے‘ سستی گاڑی؍ ٹریکٹر کی خریداری یا شادی کے جھانسے جیسی ترغیبات کے باعث آگے جا رہے ہیں تو آپ کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ آپ اغوا ہونے جا رہے ہیں لہٰذا اس قسم کی لالچ میں نہ آئیں۔ یہ آپ کے لیے ایک پھندے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ چلیں یہ تو کچے کے بارے میں اطلاعی بورڈ تھا‘ حالات اس سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔
چند ماہ قبل برادرم رستم لغاری ملتان سے رات کو سکھر کیلئے روانہ ہوا اور ابھی وہ رحیم یار خان سروس ایریا پر ہی پہنچا تھا کہ اسے موٹروے سے اتار دیا گیا۔ آدھی رات کو اچانک پڑنے والی اس افتاد پر اس نے وجہ دریافت کی تو علم ہوا کہ رات کو موٹروے پر کسی تعمیر و مرمت کے باعث آگے راستہ بند ہے۔ وہ رات اس نے ایک ہوٹل میں گزاری‘ صبح جب روانہ ہوا تو معلوم ہوا کہ کوئی تعمیراتی یا مرمت کا کام نہ تھا‘ ڈاکوؤں کے خوف سے رات کو موٹروے بند کردی گئی تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ رحیم یار خان سے سکھر تک موٹروے سے ڈاکوؤں نے سارے کیمرے اتار لیے ہیں۔ ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کچے کے ڈاکوؤں کا مسئلہ کتنا پرانا ہے؟ میں نے کہا: مجھے صحیح طرح تو معلوم نہیں کہ یہ مسئلہ کتنا پرانا ہے مگر اتنا ضرور علم ہے کہ سابقہ آئی جی پولیس راؤ رشید نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ یہ مسئلہ 60 ء کی دہائی میں بھی موجود تھا۔ میری تو بس اتنی خواہش ہے کہ کسی طرح تیل‘ کھاد اور گندم کے سمگلروں کا نام بھی نو مئی کے واقعات سے جوڑ دیا جائے‘ کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف بھی نو مئی والا پرچہ ہو جائے۔ ہمارے محافظ اداروں اور پولیس وغیرہ پر حملوں کے مرتکب دہشتگردوں پر بھی نو مئی والا پرچہ کیا جائے اور ان لوگوں کو باعثِ عبرت بنا یا جائے۔ نو مئی کے ملزمان کے خلاف کی جانے والی مثالی کارروائی کا دائرہ کار اگر سمگلروں‘ ڈاکوؤں اور دہشت گردوں تک بڑھا دیا جائے تو اس ملک کے حالات شاندار ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ مجھے اپنے مطالبے کے نتائج کا بخوبی اندازہ ہے مگر خواہش کرنے میں کیا حرج ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں