"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر دفاع کا بیان اور تاریخی حقائق

گزشتہ دنوں ملکی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ دیکھنے کو ملا کہ ملک کا وزیر دفاع افواجِ پاکستان کے ایک سابق سربراہ پر برس پڑا اور یہ دعویٰ کر دیا کہ ملک میں آئین شکنی کا دروازہ جنرل ایوب خان نے کھولا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت کے صدرِ مملکت اسکندر مرزا نے 8 اکتوبر 1958ء کو 1956ء کے دستور کو منسوخ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تھا اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا تھا۔ وزیر دفاع کو اگر ملکی تاریخ اور آئین کا ادراک نہ ہو تو پھر دفاعی رموز کو وہ کیسے سمجھ سکیں گے؟بظاہر خواجہ آصف نے بطور وزیر دفاع ملک کے مفاد کو پسِ پشت رکھا ہے۔ 2017-18ء میں بھی انہوں نے کچھ ایسے بیان دیے تھے جو بادی النظر میں ریاستی مفادات کے خلاف تھے‘ جس سے عالمی سطح پر ملک کی سبکی ہوئی۔ اسی طرح 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے ان کا اپنا بیان ہے کہ جب ان کو اپنی انتخابی شکست نظر آئی تو انہوں نے اُس وقت کے آرمی چیف کو فون کر کے معاونت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وزیر دفاع کی حیثیت سے انہوں نے سابق صدر ایوب خان کی لاش کو قبر سے نکال کر سزا دینے کا جو مطالبہ کیا ہے‘ اس پر ملک کے سبھی حلقوں میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ سیاسی معاملات میں اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کے لیے قومی اسمبلی کے فورم پر ایسے خطاب سے انہوں نے محض ملک دشمنوں کے عزائم کو تقویت پہنچائی ہے۔
صدر ایوب خان کے نظامِ حکومت پر تنقید کرنا سیاستدانوں کا حق ہے لیکن زمینی حقائق کو یوں مسخ نہیں کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان کے دیے ہوئے آئین کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی انتخابات ہوتے رہے جبکہ صدارتی الیکشن کا بھی انعقاد ہوا۔ اگرچہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے کیلئے حکومتی مشینری کا استعمال کیا گیا‘ اس امر پر تنقید کی جا سکتی ہے مگر اس بات کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ ستمبر 1965ء کی جنگ میں وہ پاکستان کے ایک ہیرو کی حیثیت سے سامنے آئے۔14 مارچ 1969ء کو ملک کے چوٹی کے سیاستدانوں نے گول میز کانفرنس میں جو مطالبات پیش کیے تھے‘ صدر ایوب نے ان کو تسلیم کیا اور ملک میں پارلیمانی نظامِ حکومت پر اتفاقِ رائے کر لیا تھا لیکن بعد ازاں ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر عنانِ حکومت جنرل یحییٰ خان نے سنبھال لی تھی۔
خواجہ آصف کے والدِ محترم خواجہ محمد صفدر مغربی پاکستان کی اسمبلی کے لیڈر آف اپوزیشن تھے اور گورنر مغربی پاکستان‘ نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان کے قریبی دوست تھے۔ خواجہ محمد صفدر نے ایک محب وطن سیاستدان کی طرح تعمیری انداز میں اپوزیشن کی طاقت کا لوہا منوایا۔صدر ایوب خان سے ان کی اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ خواجہ آصف صاحب کو چاہیے کہ ایوب خان کی شخصیت اور ان کے دور کو سمجھنے کیلئے 1962ء سے 1969ء تک کے اخبارات کا مطالعہ کریں۔ نیز20-21 اپریل 1974ء کے اخبارات کا بھی مطالعہ کریں کہ جب سابق صدر ایوب خان کی وفات ہوئی تھی‘ ان کے جنازہ میں پانچ لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی۔ اُس وقت کے اخبارات اس امر کے گواہ ہیں کہ ان کے جنازے میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ خواجہ آصف کو عمر ایوب خان کی قومی اسمبلی کی تقریر کے حوالے سے مثبت انداز میں ٹھوس اور مدلل جواب دینا چاہیے تھا۔ خواجہ آصف سینئر ترین سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں مگر انہیں شاید ادراک نہیں کہ قومی اسمبلی میں سابق صدر ایوب خان کے حوالے سے ان کی تقریر سے دفاعی حلقوں میں کس قسم کے تاثرات پیدا ہوئے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان جوابی تقریرکرنا چاہتے تھے مگر سپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔
دوسری طرف ان دنوں دبئی لیکس کا کافی چرچا ہے۔ دبئی میں غیر ملکیوں کی تقریباً 400 ارب ڈالرز کی جائیدادوں کا انکشاف ہوا ہے‘ جس میں پاکستانیوں کی 12 ارب ڈالرز کی جائیدادیں بھی شامل ہیں۔ پاکستانی دبئی میں جائیداد کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان لیکس میں جن سیاسی شخصیات بالخصوص اراکینِ اسمبلی کے نام سامنے آئے ہیں‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے کہ ان افراد کے کاغذاتِ نامزدگی کی ازسرِ نو جانچ پڑتال کرے۔ واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 137کے تحت اراکینِ اسمبلی کو کاغذاتِ نامزدگی کے فارم کے علاوہ جائیداد کے سالانہ گوشوارے بھی الیکشن کمیشن میں جمع کرانا ہوتے ہیں۔ دبئی لیکس میں جن اراکینِ اسمبلی کا نام آیا ہے‘ اگر انہوں نے دبئی کی جائیدادوں کا اپنے گوشواروں میں ذکر نہیں کیا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان ضابطہ کی کارروائی کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو‘ ایف آئی اے اور ایف بی آر کی معاونت سے ان افراد کے خلاف کرپٹ پریکٹس کے تحت کارروائی کرنے کا مجاز ہے اور حقائق چھپانے پر ان کو اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرتے ہوئے پانچ سال کیلئے نااہل بھی قرار دے سکتا ہے۔
دبئی پراپرٹی لیکس میں 17ہزار سے زائد پاکستانیوں کے نام ہیں‘ جنہوں نے دبئی میں23ہزار جائیدادیں خرید رکھی ہیں‘ایف بی آر کو ان کے سالانہ ٹیکس دستاویزات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اتنی مہنگی جائیدادیں خریدنے کے ذرائع آمدن اور وسائل کیا تھے‘ آیا انہوں نے پاکستان میں انکم ٹیکس ادا کیا؟ بیرونِ ملک جائیداد خریدنے کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی وساطت سے زرِمبادلہ باہر منتقل کیا یا پھر یہ رقوم منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی گئی تھیں۔ ایف بی آر پر اب بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے کہ ان 17ہزار افراد کے انکم ٹیکس ریٹرنز کا جائزہ لے اور کرپٹ پریکٹسز میں ملوث افراد کے خلاف ضابطے کی کارروائی کرے۔ ایسے وقت میں جب ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے اور آئی ایم ایف کے قرضہ جات 80کھرب تک پہنچ گئے ہیں ‘پاکستانیوں کی 12ارب ڈالر کی جائیدادوں کا انکشاف حیران کن ہے۔ جن لوگوں نے منی لانڈرنگ سے پیسہ باہر منتقل کیا‘ ان سب کی جائیداد بحقِ ریاست ضبط کر کے قرضوں کی ادائیگی آسان بنائی جا سکتی ہے۔ دبئی پراپرٹی لیکس کے انکشافات پر کارروائی سے ملک میں معاشی ایمرجنسی کا آغاز ہو سکتا ہے۔
اب کچھ بات نگران حکومت کی سانحہ 9 مئی کی رپورٹ سے متعلق۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج سمیت ریاست کے تمام اداروں پر عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچا۔ کابینہ کی یہ رپورٹ بڑی اہمیت کی حامل ہے جس کے مطابق عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان خلیج کا تاثر واضح ہے۔ مجھے کابینہ رپورٹ پر افسوس ہوا ہے۔ دراصل کیبنٹ سیکرٹری کو نگران کابینہ اور نگران وزیراعظم کے مائنڈ سیٹ کا ادراک تھا اور کابینہ میں ایسے افراد بھی موجود تھے جو دفاعی اداروں کے حوصلے پست دیکھنے میں راحت محسوس کر رہے تھے۔ تب جو صاحب سیکرٹریٹ کودیکھ رہے تھے‘ ان کے پس منظر سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ ان کو الیکشن کمیشن نے ان کے عہدے سے فارغ کر دیا تھا مگر بعد میں نگران کابینہ کا حصہ بنا دیا گیا۔ 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی ایک سانحہ دیکھنے میں آیا تھا جب ملک بھر‘ بالخصوص سندھ میں فسادات برپا ہو ئے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 200 ارب سے زائد کے نقصانات ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن کے سندھ میں تمام دفاتر کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو 8 جنوری کو انتخابات موخر کرتے ہوئے 18 فروری 2008ء کو کرانا پڑے تھے۔ عوام اور افواجِ کے حوصلے اُس وقت بھی پست نہیں ہوئے تھے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سربراہی میں افواجِ پاکستان مضبوط کھڑی تھیں‘ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بظاہرمذکورہ بالا رپورٹ کسی خاص مقصد کے تحت لکھوائی گئی اور نگران کابینہ نے اس پر دھیان نہیں دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں