"MMC" (space) message & send to 7575

دعوتِ دین کے تقاضے اور آداب…(سوم)

رشد وہدایت اور دعوتِ دین سے منسلک حضرات کو سامعین کی ذہنی وفکری سطح اور ان کی فہم وفراست کے معیار کے مطابق گفتگوکرنی چاہیے‘ اس لیے کہ ہر ایک کی ذہنی صلاحیت اس معیار کی نہیں ہوتی ہے کہ وہ ہر بات کو سمجھ سکے‘ لہٰذا ہر بات خواہ صحیح اور درست بھی ہو‘ بتانے کی نہیں ہوتی‘ کیونکہ بہت سے لوگ اپنی کج فہمی اور کوتاہ علمی کی وجہ سے صحیح باتوں کی بھی تکذیب کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو‘ بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے‘‘ (النحل: 125)۔ مفسرین نے ذکر کیا ہے: حکمت کا مطلب یہ ہے کہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت‘ استعداد اور حالات کو سمجھ کر نیز موقع ومحل کی مناسبت سے بات کی جائے اور عمدہ نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ صرف دلائل پر اکتفا نہ کیا جائے‘ بلکہ مخاطَب کو لگے کہ آپ اُس کے بہی خواہ اور ہمدرد ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''لوگوں کے ساتھ ان کے مقام مرتبہ کے حساب سے برتائو کرو‘‘ (ابودائود: 4842)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ''لوگوں کے فہم وفراست کے معیار کے مطابق ان سے خطاب کرو‘ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسولﷺکی تکذیب کی جائے‘‘ (بخاری: 127)۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''لوگوں کو ایسی حدیثیں سُنانا جو اُن کے فہم سے بلند ہوں‘ فتنے کا باعث ہے‘‘ (جامع بیان العلم: 888)۔ ہشام بن عروہ فرماتے ہیں: ''آپ اگر کسی سے اس کے عقل وفہم کے معیار سے بلند ہو کر گفتگو کریں گے تو وہ گمراہ ہو جائے گا‘‘ (جامع بیان العلم: 889)۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک وڈیو میں روزے کی حالت میں استنجا کے حوالے سے ایک فقہی مسئلہ بیان کیا گیا ہے جو اپنی جگہ درست ہے‘ لیکن ایسے مسائل کلاس روم میں پڑھانے چاہئیں‘ انہیں میڈیا پر لائیو نشر کرنا یا سوشل میڈیا پر وائرل کرنا حکمتِ دین کے منافی ہے‘ کیونکہ میڈیا کو دیکھنے والے مختلف سطح کے لوگ ہوتے ہیں‘ بعض اصلاح پسند ہوتے ہیں اور بعض شرپسند ہوتے ہیں۔ شرپسند لوگ اُسے لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں‘ لہٰذا دین کی عظیم تر حکمت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح بہت سے واعظین اور خطباء‘ جن کا کام صرف کرامتیں اور عجائب وغرائب بیان کرنا ہے‘ اُن کے خطابات سے مختلف حصے کاٹ کر چھوٹے چھوٹے کلپ بنائے جاتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر وائرل کیے جاتے ہیں‘ اس کی آڑ میں مسلّمہ بزرگانِ دین کا بھی مذاق اُڑایا جاتا ہے‘ پس اس بارے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔
(5) خطباء کو چاہیے کہ وہ اپنے دروس اور جمعہ کے خطابات میں دوسرے مسالک کی شخصیات‘ تنظیموں اور اداروں پر طعن وتشنیع کے بجائے اپنے مؤقف کو مثبت اور مدلل انداز میں بیان کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ غیر جانبدار اور خالی الذہن لوگ آپ کی بات پر توجہ دیں گے اور ممکن ہے کہ وہ اسے قبول کریں۔ اس کے برعکس گالی گلوچ اور طعن وتشنیع سے دوسروں کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں‘ وہ ضد پر اتر آتے ہیں اور مغلوب الغضب ہو کر قبولِ حق سے انکار کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور (اے رسولِ مکرم!) میرے بندوں سے کہہ دیجیے: وہ اچھی بات کیا کریں‘ کیونکہ شیطان اُن کے درمیان فساد ڈالتا ہے‘ بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 53)۔ ایسے جملے اور کلمات استعمال نہ کیے جائیںجو لوگوں کو اُس کے خلاف کر دیں‘ کیونکہ لوگ اپنی برادری‘ کاروباری شرکاء‘ اداروں اور جماعتوں کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتے۔ نیز دعوتِ دین کا مقصد دوسروں کو اپنے قریب بلانا ہے‘ محض اُن کے عیوب بیان کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب متکلِّم اور مخاطَب میں کوئی اشتراک ہو‘ چنانچہ قرآنِ کریم میں انبیائے کرام کی دعوت کا عنوان اکثر ''یٰقَوْمِ‘‘ سے شروع ہوتا ہے‘ اس میں برادرانہ رشتے کے جذبات پیدا کر کے اصلاحی کلام کیا جاتا ہے کہ ہم تم تو ایک ہی برادری کے لوگ ہیں‘ کوئی منافرت نہیں ہونی چاہیے‘ یہ کہہ کر ان کی اصلاح کا کام شروع فرماتے ہیں۔ لہٰذا کسی کو نامزد کیے بغیر جرائم کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کرنی چاہیے اور یہی نبی کریمﷺ کا اُسلوب تھا۔ آپﷺ دعوت واصلاح کے کام میں اس کا بہت اہتمام فرماتے تھے کہ مخاطب کی سبکی یا رسوائی نہ ہو‘ اسی لیے جب کسی شخص کو دیکھتے کہ کسی غلط اور برے کام میں مبتلا ہے تو اس کو براہِ راست خطاب کرنے کے بجائے مجمع عام کو مخاطب کر کے فرماتے تھے: ''لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اس طرح کے کام کرتے ہیں‘‘۔ جس کو سنانا مقصود ہوتا وہ بھی سن لیتا اور اپنی اصلاح کر لیتا‘ یہ ایسا حکیمانہ طریق کار ہے جس کے باعث مخاطب کو شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انبیائے کرام کی عام عادت یہی تھی کہ مخاطَب کو شرمندگی سے بچاتے تھے‘ اسی لیے بعض اوقات جو کام مخاطب سے سرزد ہوا ہے‘ اس کو اپنی طرف منسوب کر کے اصلاح کی کوشش فرماتے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''میں اپنے خالق کی عبادت کیوں نہ کروں‘ حالانکہ تم سب اُسی کی طرف لوٹائے جائو گے‘‘ (یٰس: 22)۔ ظاہر ہے کہ یہ دین کے یہ داعی تو ہر وقت مصروفِ عبادت رہتے تھے‘ دراصل اُن مخاطَبین کو سنانا مقصود تھا جو خالق کی بندگی سے دور ہیں‘ مگر اپنی ذات کو سامنے رکھ کر بات کی۔
(6) ہمارے ہاں عموماً مساجد اور دینی محافل میں لاوڈ سپیکر کا غیر محتاط استعمال ہوتا ہے‘ ماہِ رمضان میں سحری کا وقت ختم ہونے سے دو گھنٹے پہلے چاروں سَمت مساجد سے اعلانات شروع ہو جاتے ہیں‘ نہ صرف اعلان بلکہ مسلسل اذانِ فجر تک تلاوتِ قرآن اور نعت خوانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ایک بے ہنگم شور برپا ہوتا ہے‘ جس کی وجہ سے خصوصاً مساجد کے قرب وجوار میں لوگوں کو اپنے گھروں میں نوافل اور تلاوتِ قرآنِ کریم میں یکسوئی نہیں رہتی‘ اُن کی عبادات میں خلل واقع ہوتا ہے‘ ننھے بچوں‘ بوڑھوں اور بیماروں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شریعت کی رُو سے لاؤڈ سپیکر کا اس طرح کا استعمال نامناسب ہے۔ اِسی طرح بہت سی مسجدوں میں جمعہ کے دن اور دیگر خاص مواقع پر نعت خوانی‘ ذکر اذکار‘ خطابات اور صلوٰۃ وسلام کیلئے لائوڈ سپیکر استعمال کیا جاتا ہے اور دور دور تک گھروں کے اندر آواز کو پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ دعوتِ دین کے اُصولوں کے خلاف ہے اور شرعاً بھی اس کا کوئی جواز نہیں ہے‘ البتہ لائوڈ سپیکر کے ذریعے اذان کی آواز دور تک پہنچانا جائز ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مسجد میں تھوڑے لوگ وعظ یا درس سننے کیلئے بیٹھے ہیں‘ جن کو آواز پہنچانے کیلئے لائوڈ سپیکر کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے یا صرف اندرونی سپیکر سے بآسانی کام چل سکتا ہے‘ لیکن بیرونی لائوڈ سپیکر پوری قوت سے کھلا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ آواز محلے کے گھر گھر میں اس طرح پہنچتی ہے کہ کوئی شخص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ''حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک واعظ مسجد نبوی میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کے مکان کے بالکل سامنے بہت بلند آواز سے وعظ کرتا تھا‘ جس کی وجہ سے حضرت عائشہؓ کی یکسوئی میں فرق آتا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت عمرؓ سے اس کی شکایت کی‘ حضرت عمرؓ نے اُس واعظ کواس طرح کرنے سے منع کیا‘ لیکن وہ باز نہ آیا اورکچھ عرصے کے بعد اُس نے وہی سلسلہ پھر شروع کر دیا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ تشریف لائے اورخود جا کر اُسے پکڑا اور اس پر تعزیری سزا جاری کی‘‘ (اخبار المدینہ، ج: 1، ص: 51)۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں