سورة الاعراف میں خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہﷺ اور آپ کی اُمت کے فضائل کو اللہ تعالیٰ نے نہایت اہتمام کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا: "(موسیٰ نے دعا کی: اے اللہ!) 'اور ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھی بھلائی لکھ دے‘ بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں جسے چاہوں اپنا عذاب دوں اور میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے‘ (لیکن اے موسیٰ!) میں عنقریب (دنیا اور آخرت کی بھلائی) اُن لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ پر کاربند رہیں گے‘ زکوٰة دیں گے اور ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے‘ (یہ وہ لوگ ہیں:) جو اُس عظیم رسول"نبیِّ اُمّی" کی پیروی کریں گے جس کا تذکرہ وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں‘ جو انہیں نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور جو اُن کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیں گے اور اُن سے اُن کے بوجھ اور اُن کے گلوں کے طوق اتار دیں گے‘ پس جو لوگ اُن پر ایمان لائیں گے‘ اُن کی تعظیم اور نصرت کریں گے اور اُس نور کی پیروی کریں گے جو اُن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے‘ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘ (اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا رسول ہوں‘ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے‘ اُس کے سوا کوئی عبادت کا حق دار نہیں ہے‘ وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے‘ پس تم اللہ اور اُس کے "اُمّی لقب" رسول پر ایمان لاﺅ جو (خود بھی) اللہ اور اُس کے فرامین پر ایمان رکھتے ہیں اور اُن کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاﺅ" (الاعراف: 156 تا 158)۔ ان آیات میں دو مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا ذکر"النبی الامی" کے لقب کے ساتھ فرمایا ہے۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی اُمت کےلئے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: "جو تم نے مانگا ہے‘ وہ میں نبی آخر الزّماںﷺ کی امت کو عطا کروں گا اور اس میں آپﷺ کے متعدَّد اوصاف بیان فرمائے ہیں: "عظیم رسول‘ نبی‘ اُمِّی‘ نیکی کا حکم دینے والے‘ برائی سے روکنے والے‘ پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دینے والے‘ لوگوں پر سخت احکام اور بداعمالیوں کے جو بوجھ ہیں اور اُن کے گلے میں جو طوق پڑے ہوئے ہیں‘ اُن سے نَجات دلانے والے"۔ یعنی التجا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی اُمّت کےلئے کی‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز" اُمتِ محمدیہ" کو عطا فرمایا۔ مفسرین کرام نے لکھا ہے: "دنیا کی بھلائی سے مراد احکام کا نرم اور آسان ہونا ہے‘ کیونکہ بنی اسرائیل پر احکام میں بڑی شدت تھی‘ مثلاً: اگر کپڑے پر نجاست لگ جاتی تو اُسے کاٹ کر پھینکنا پڑتا‘ اگر گھر میں چھپ کر کوئی جرم کرتے تو صبح چوکھٹ پر لکھا ہوتا‘ غنیمت اور صدقات کے مال کو اُن کےلئے استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی‘ بلکہ آسمان سے آگ آتی اور اُسے جلا ڈالتی اور یہ اس بات کی دلیل ہوتی کہ صدقہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو گیا ہے اور اس کے برعکس صدقہ ردّ ہونے کا اعلان ہوتا۔ وہ صرف عبادت گاہ یعنی بِیَعہ‘ کَنِیسَہ اور صَومِعَہ میں عبادت کرنے کے پابند تھے‘ پانی کی عدم دستیابی یا عذر کے سبب تیمم کی اجازت نہ تھی وغیرہ‘ جبکہ اُمتِ محمدیہ کےلئے اللہ تعالیٰ نے آسانیاں پیدا فرما دیں۔ آخرت کی بھلائی سے مراد یہ ہے کہ تھوڑے عمل پر زیادہ اجر سے نوازا جائے‘ جیسا کہ قرآنِ کریم کی آیات میں ہے: "دس سے لے کر چودہ سو گنا تک بلکہ اس سے بھی دوچند اجر عطا کیا جا سکتا ہے"۔ آج کل اُن کی عبادات کے نام چرچ‘ سینی گاگ اور ٹیمپل ہیں۔
سوشل میڈیا پر شہرت رکھنے والے ایک مولانا نے لفظِ "اُمِّی" کو لے کر اچانک بحث چھیڑ دی کہ العیاذ باللہ! نبیﷺ اَن پڑھ تھے اور صحابہ کرام بھی اَن پڑھ تھے‘ اس لیے کتابتِ قرآن میں اُن سے گرامر کے قواعد کی بعض غلطیاں ہوئیں اور نبیﷺ نے بھی ان کو درست نہیں کرایا کہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ یہ بہت بڑی جسارت ہے‘ اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اللہ کا کلام کسی گرامر (صرف ونحو) یا انسانوں کے بنائے ہوئے قواعد وضوابط کا پابند نہیں ہے۔ اللہ کا کلام جیسے نازل ہوا‘ ویسے ہی نقل ہوا اور پڑھا جاتا رہا‘ اس کا مدار نقل اور سَمع پر ہے‘ شریعت کی اصطلاح میں اسے "توقیفی" کہتے ہیں۔ قرآن کا تلفظ اور رسم الخط انسانوں نے اپنی عقل سے طے نہیں کیا‘ بلکہ جیسا رسول اللہﷺ نے تعلیم فرمایا‘ ویسے ہی ہے‘ مثلاً: "وَمَا ارسَلنَاکَ لَّا رَحمَةً لِّلعَالَمِینَ" میں لفظِ "رَحمَةً" تائے مُدَوَّرة (گول تا) کے ساتھ ہے اور یہی لفظ "نَّ رَحمَتَ اللّٰہِ قَرِیب مِّنَ المُحسِنِین" میں تائے مبسوط (لمبی تا) کے ساتھ ہے اور ایسا ہی لکھا جاتا ہے اور لکھا جاتا رہا ہے۔ علمِ نحو کے چند بنیادی اصول امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ابوالاسود دُوَلی کو تعلیم فرمائے اور ہدایت فرمائی: نحو کے قواعد مرتب کر لو۔ الغرض قرآنِ کریم کو انسانوں کے بنائے ہوئے علوم یا صرف ونحو ولغت کے قواعد پر پرکھا نہیں جائے گا‘ بلکہ قرآنِ کریم اصل ہے‘ متبوع ہے اور باقی سب اُس کے تابع ہیں۔
اسی طرح "اُمّی" کا لفظ اُمّ سے بنا ہے اور اس کے ساتھ یائے نسبتی ہے۔ عربی زبان میں اُمّ کے معنی ہیں: "اصل‘مَبدا‘ جڑ‘ منبع اور ایسی چیز جس سے کسی چیز کا آغاز ہو‘ جو مرکز ومرجِع کی حیثیت رکھتی ہو اور اس کے ماتحت بہت سے توابع اور فروع پائے جائیں۔ ماں چونکہ اپنے بچوں کےلئے اصل کی حیثیت رکھتی ہے اور اُن کےلئے سائباں کی مانند ہوتی ہے‘ اس لیے اس کو اُمّ کہا جاتا ہے۔ انسان کے سارے جسم کو دماغ کنٹرول کرتا ہے اور باقی تمام اعضا اس کے تابع ہوتے ہیں‘ اس لیے اس کو "اُمُّ الرَّاس" کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح سورة الفاتحہ کو "اُمُّ القُرآن" کہا گیا ہے‘ کیونکہ یہ قرآنِ مجید کا مَبدا ہے‘ اس سے قرآنِ مجید کا آغاز ہوتا ہے‘ نیز اس سورت میں اُن تمام مضامین وموضوعات کا اِجمال ہے جو قرآنِ مجید کی بقیہ ایک سو تیرہ سورتوں میں تفصیلاً بیان کیے گئے ہیں۔ اِسی طرح لوح محفوظ کو قرآنِ مجید میں "اُمُّ الکِتَاب" سے تعبیرکیا گیا ہے‘ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام مُقدَّرات کا سرچشمہ اور منبع ہے‘ چنانچہ خود قرآنِ کریم کو اُسی سے نکالاگیا ہے۔ یونہی مکہ معظمہ کو "اُمُّ القُریٰ" کہا جاتا ہے‘ کیونکہ جزیرہ عرب میں اسے مرکزو مرجِع کی حیثیت حاصل تھی‘ گویا یہ عالَمِ عرب کی تمام بستیوں کی ماں ہے‘ اسی میں بیت اللہ ہے‘ اس لیے یہ بستی سارے عرب کیلئے مرجِع کی حیثیت رکھتی تھی۔ جزیرہ عرب کی ساری دانش قیادت کی صورت میں یہاں جمع ہو گئی تھی‘ تمام قبائلِ عرب کے بُت بھی یہاں رکھے ہوئے تھے‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کے گھر کے علاوہ بتوں کی صورت میں بھی تمام مشرکینِ عرب کی عقیدت کا مرکز یہی بستی تھی۔ جس بات کا چلن اس بستی میں ہو جاتا تھا‘ وہ سارے جزیرہ عرب کی آواز بن جاتی تھی‘ اِس لیے اس بستی کو "اُمُّ القُریٰ" کہا گیا ہے۔
ائمہ اسلام نے نبی کریمﷺکو اُمّی کے لقب سے موصوف کیے جانے کی متعدد وجوہات ذکر فرمائی ہیں: متقدمین ومتاخرین الغرض تقریباً جملہ مفسرینِ کرام نے اس کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ لفظ "اُمُّ القُریٰ" یعنی مکہ معظمہ کی طرف منسوب ہے‘ چنانچہ جب منسوب الیہ مرکب ہو‘ تو طوالت سے بچنے کےلئے اس کے ایک جز میں یائے نسبت لگا دینا معمول ہے‘ جیسے معدیکرب سے معدی‘ عبدالدار سے عبدری اور ابوحنیفہ سے حنفی وغیرہ۔ پس نبی کریمﷺکو "اُمُّ القُریٰ" کی نسبت سے "اُمی" کہا جاتا ہے‘ کیونکہ یہ آپﷺ کا مقامِ ولادت اور آبائی وطن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے براہِ راست آپﷺ کو اس بستی والوں میں بھیجا تاکہ آپﷺ کی دعوت اس بستی کے ذریعے تمام جزیرہ عرب میں پھیل جائے۔(جاری)