اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

گندم بحران، اصل اسباب کا تعین کریں

گندم بحران کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے سیکرٹری کابینہ ڈویژن کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور وزیراعظم اس سکینڈل کے ذ مہ داروں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عندیہ دے چکے ہیں‘ مگرزمینی حقائق یہ ہیں کہ گندم کے کاشتکار کیلئے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ تی۔ پنجاب گندم کا سب سے بڑا پیداکار صوبہ ہے ‘ اور یہاں حکومتی سطح پر گندم کی خریداری مہم کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔کاشت کار جو پچھلے کئی روز سے گندم کے حوالے سے حکومتی فیصلے کے منتظر تھے ‘ اُن کی توقعات دم توڑ رہی ہیں اور وہ اپنی پیداوار اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور ہیں۔حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی گندم کی درآمد کے معاملے میں کس نتیجے پر پہنچتی ہے اور کس کو ذمہ دارٹھہراتی ہے‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا ‘ تاہم اس سرگرمی کا گندم کے کاشتکار کو کوئی فائدہ پہنچتا دکھائی نہیں دیتا۔اس مایوس کن صورتحال کے منفی اثرات ملکی زراعت پر تادیر رہیں گے۔ گندم کے کاشتکار کی جس طرح کمر ٹوٹی ہے اس کا پہلا اثر توکاشتکار کی بددلی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ہمارا کاشتکار مالی طور پر اتنا مستحکم نہیں کہ کسی فصل کے بھاری نقصان کا متحمل ہو سکے۔ان حالات میں حکومت اگر کاشت کار کے لیے واقعتاً کچھ کرنا چاہتی ہے تو اسے آنے والے وقت کے حوالے سے اعتماد میں لینا ہو گا۔عین اس وقت جب ملکی گندم تیار تھی‘ باہر سے بھاری مقدار میںگندم منگوا لینے کے نتائج سے سبق حاصل کرنا ہو گا اور آنے والے وقت کے لیے بہتر منصوبہ بندی یقینی بنانا ہو گی تاکہ ہمارے کاشت کار کو آئندہ ایسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ملک میں وافر سٹاک اور نئی فصل تیار ہونے کے باوجود بھاری مقدار میں گندم درآمد کرنے کی مثال اس سے پہلے ملکی تاریخ میں نہیں ملتی‘ یقینا کسی اور ملک میں بھی ایسے عاقب نااندیش اقدام کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہی ہو گا۔اس عمل کے نقصانات دیر پا اور غیر معمولی ہیں۔ یہ صرف گندم کی غیر ضروری درآمد پر خرچ کیے گئے ڈالرز کی صورت میں نہیں بلکہ ملکی گندم کے ضیاع‘ کاشت کاروں کے مالی نقصان اور اعتماد کی شکست کی صورت میں بھی ہے۔ مگر دیکھا جائے تو اس کی جڑیں ہمارے نظام کی خا میوں میں بہت گہری ہیں۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ گندم اور دیگر اجناس اور اشیا کی سمگلنگ کے نقصانات ہماری معیشت کے لیے غیر معمولی ہیں۔ سمگلنگ کی روک تھام کے بغیر ملک میں خوراک کے  ذخائر کو برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ ہر سال آٹے اور چینی کے بحران کی صورت میں پاکستان سمگلنگ کے نتائج کو بھگتتا ہے ‘ مگر حکومتیں چند روز کی حرکت کے بعد حسب ِمعمول خاموشی اختیار کر لیتی ہیں اور ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے گندم اور چینی درآمد کر لی جاتی ہے۔ ہم شاید واحد زرعی ملک ہیں جو ہر طرح کی زرعی اجناس پہلے ضائع یا سمگل کرواتا ہے اور پھر ضرورت کے لیے بہت مہنگے داموں اسے درآمد کرتا ہے۔ اس کے اسباب یہ ہیں کہ ہمارے اداروں کے پاس نہ تو ملکی ذخائر کے درست اعدادوشمار ہیں اور نہ سمگلنگ کی روک تھام یقینی بنائی جاسکی  ہے۔ دنیا بے حد ترقی کر گئی ہے اور سٹاک مینجمنٹ اور انوینٹری کیلئے جدید ترین وسائل استعمال کیے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسے وسائل کو اختیار کرنے سے بوجوہ پرہیز کیا جاتا ہے‘ اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں دستیاب ذخیرے کے بارے کسی کو علم ہی نہیں ہوتا اور ضرورت سے زیادہ مقدار درآمد کر لی جاتی ہے یا برآمد کر دی جاتی۔گندم کا موجودہ بحران کاشت کار کیلئے یقینا تباہ کن ہے اور ملکی زراعت کو حالیہ تاریخ میں اس سے بڑا نقصان کسی قدرتی آفت سے بھی نہیں پہنچا‘ مگر اس بحرانی صورتحال سے حکومت کو جو سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ سمگلنگ کی روک تھام یقینی بنائے اور ملک میں خوراک کے ذخائر کے درست اعدادوشمار مرتب کرنے کا بندوبست کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو خوراک کے شعبے میں یہ بدنظمی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement