اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

آئی ایم ایف اور قومی خود مختاری کا مسئلہ

وزیر دفاع خواجہ آصف نے بجٹ پر سنجیدہ سوال اٹھا ئے ہیں اور آئی ایم ایف کو قومی خود مختاری کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے مختلف طبقات اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق اس پر تبصرہ کر رہے ہیں مگر بجٹ سے ملکی خودمختاری خطرے میں پڑ جانے کی جو بات وزیر دفاع نے کی وہ قابلِ غور ہے۔ مختلف پیرایوں میں یہ بات پہلے بھی کی جا تی رہی ہے کہ ملکی قرضوں کا غیر معمولی بوجھ ایک ایسا جال ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ‘ اور چونکہ کسی ملک کی معیشت اس کے استحکام اور خود مختاری کے لیے اہم ترین ہے اس لیے پیچیدہ معاشی مسائل قومی خود مختاری کا سنجیدہ مسئلہ ہیں۔ ملکی قرضے اس وقت جی ڈی پی کے 85 فیصد سے تجاوز کر چکے ہیں اوران پر واجب الادا سود سب سے بڑا قومی خرچ ہے۔مالی سال 2023-24ء کی بجٹ دستاویز کے مطابق قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کے لیے 7303 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جبکہ رواں مالی سال 18877 ارب روپے کے بجٹ میں 9775 ارب روپے قرضوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں خسارے میں چلنے والے سرکاری کاروباری ادارے ہیں‘ 2023ء میں جن کانقد خسارہ 905 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ خسارے کی اس دلدل سے کیسے نکلا جائے‘ یہی اس وقت قومی سطح پر بڑی اہمیت کا سوال ہے۔ جناتی نوعیت کے اس معاشی بحران کو کنٹرول کرنے کے لیے دیر پا اورموزوں حکمت عملی اختیار کرنے اور پوری دیانتداری سے قوم کا ایک ایک پیسہ بچا نے کی ضرورت ہے تا کہ مالیاتی بحران کی اس خلیج کو پاٹ سکیں۔ یہ کام ملک میں سیاسی اتفاق کے بغیر ممکن نہیں۔دوسری طرف ملکی اور غیرملکی قرض دہندگان کا آپشن ہے‘ جو ہمیں اپنی شرائط پر قرض دیتے ہیں اور اپنا قرض وصول کرنے کے لیے اپنی شرائط اور ان پر عمل کا ہدایت نامہ بھی ساتھ ہی دیتے ہیں۔ وزیر دفاع نے عالمی مالیاتی ادارے کے بارے جو کچھ کہا یہ کوئی راز کی بات نہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنی قسمت کے فیصلے اُن عالمی قرض دہندگان کے ہاتھ میں کیوں دے رکھے ہیں؟ ہمارے ملک میں دولت کے بے پناہ وسائل ہیں اور جغرافیہ بھی ایسا ہے کہ پاکستان مشر ق اور مغرب کے لیے ایک پُل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ خوبیاں بذات خود دولت کا سر چشمہ ہیں‘ مگر ان وسائل سے استفادہ کرنے کے بجائے ہم نے قرض لینے کا جو راستہ اختیار کر رکھا ہے اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے جو برآمد ہو رہا ہے۔ حالیہ بجٹ کی بات کریں تو حکومت نے بلاشبہ ہر شعبہ زندگی کو بساط بھر نچوڑا ہے ‘ اس طرح حکومت کو کچھ زرمبادلہ تو حاصل ہو جائے گا مگر اس سے بہت سے پیداواری شعبوں کی قوتِ نمو دم توڑجائے گی۔ حکومتی ذمہ داران ان اقدامات کو آئی ایم ایف کی حکمت عملی قرار دیتے ہیں ‘ مگروہ یہ کہہ کر ان اقدامات کے نتائج سے بری الذمہ نہیں ہو جاتے۔ وہ جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا اصلاحاتی ایجنڈا کہیں بھی خوشحالی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوا۔ یہ کسی حد تک آپ کی ہلکان معیشت کو زندگی کی کچھ سانسیں فراہم کرسکتا ہے مگر اس کے آگے اس ملک کے اپنے ذمہ داران پر ہے کہ وہ معاملات کو کس طرح چلاتے ہیں۔ ہم صرف یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے کہ آئی ایم ایف ہماری خود مختاری کے لیے خطرہ ہے۔ہم پر یہ یقینی بنانے کی ذمہ داری بھی ہے کہ اس صورتحا ل سے نکلنا کیسے ہے۔ اس دائمی مرض کا علاج ٹیکس نظام کی اوور ہالنگ ‘ ملکی مصنوعات کے فروغ ‘ حکومتی اخراجات میں کمی‘ ریونیو میں اضافے اور خسارے کے شکار اداروں سے جان چھڑانے سمیت متعدد اصلاحاتی اقدامات ہیں جو اس مشکل سے نجات دلا سکتے ہیں۔ مگر ان مسائل اور حل کے اقدامات کو دہرانا اس وقت تک بے مقصد ہے جب تک اصلاح کے اقدامات نہ کیے جائیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں