جناب مجیب الرحمن شامی جیسی شخصیت کو اگر پوری قوم کے سامنے اپنے ایمان کے اظہار کی ضرورت آن پڑی ہے تو پھر جان لینا چاہیے کہ کوئی بڑی خرابی ہماری جڑوں میں اُتر گئی ہے۔
گزشتہ 50 برس سے اس ملک کی صحافت میں اسلام کا عَلم جن شخصیات نے اپنے ہاتھوں نے تھام رکھا ہے‘ ان میں دو نام نمایاں تر ہیں: جناب الطاف حسن قریشی اور جناب مجیب الرحمن شامی۔ آج سیاست نظریاتی نہیں رہی‘ اس لیے صحافت یا سیاست میں اسلامی اور غیر اسلامی کی تقسیم بے معنی ہو چکی۔ 40‘ 50برس پہلے ایسا نہیں تھا۔ اُس وقت سماج کی تقسیم نظریاتی تھی۔ سوشلزم اور اسلام کے معرکے میں اسلام کا پرچم بلند کرنے والوں میں شامی صاحب سب سے آگے تھے۔ اسلام کے نام پر برپا ہونے والی ہر تحریک میں ان کے ہفت روزے نے ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیا۔ تحریکِ ختم نبوت‘ تحریکِ نظامِ مصطفی‘ وہ ہر تحریک کا ہر اوّل دستہ تھے۔ آج ان تحریکوں کا تجزیہ‘ ممکن ہے ہمیں کسی مختلف نتیجے تک پہنچاتا ہو اور پسِ پردہ کچھ سیاسی محرکات کو کارفرما دیکھتا ہو۔ اُس وقت لیکن یہ سب کچھ دین کی محبت میں کیا جا رہا تھا۔ یہ آسان کام نہیں تھا۔ اُن دنوں جس طرح جرائد کے ڈیکلریشن منسوخ ہوتے تھے اور جس طرح قید و بند کی ارزانی تھی‘ تاریخ نے اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔
محترم شامی صاحب نے ماہنامہ ''قومی ڈائجسٹ‘‘ کا آغاز کیا تو دینی موضوعات اور شخصیات پر یاد گار نمبر شائع کیے۔ مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی اور مفتی محمود صاحب جیسی مذہبی شخصیات کی ایسی قلمی تصاویر اتاریں کہ ان کا کوئی بڑے سے بڑے مداح بھی نہیں کھینچ سکا۔ میرا برسوں سے ان کے ساتھ ملنا جلنا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نماز کا وقت آیا ہو اور انہوں نے تساہل سے کام لیا ہو۔ اب اگر 50 برس کی ایسی 'مذہبی زندگی‘ کے ساتھ‘ جس کا شام و سحر عوام کے سامنے گزرا ہو‘ انہیں اپنے ایمان کی ایک بار پھر گواہی دینا پڑی ہے تو یہ اس کا اظہار ہے کہ مذہب جیسی بابرکت اور محبت کی قوت‘ خوف کی علامت بنا دی گئی ہے۔
مسلم معاشرہ کیسا ہونا چاہیے؟ یہ ہم اسلامی تاریخ سے پوچھتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی موجودگی میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو منافقین نے ہدف بنانا چاہا۔ مقصود آپﷺ اور آپﷺ کے اہلِ بیت اور مسلمانوں کو اذیت پہنچانا تھا۔ پروپیگنڈے کا ایسا زور تھا کہ ام المومنین اپنے میکے تشریف لے گئیں۔ واپسی تب ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے سیدہ کی عفت کی گواہی دی۔ سورۂ نور میں‘ جہاں یہ واقعہ بیان ہوا وہاں اللہ تعالیٰ نے اہلِ اسلام کو مخاطب ہو کر فرمایا: ''تم لوگوں نے جب یہ بات سنی تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنے لوگوں کے بارے میں نیک گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ ایک کھلا ہوا بہتان ہے‘‘(24:12)۔
یہ اُس معاشرے کی اقدار طے ہو رہی ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اللہ کے آخری رسولﷺ نے قائم کیا۔ اس میں حسنِ ظن تھا۔ اسی ہدایت کے زیرِ اثر جو فقہی روایت وجود میں آئی اس میں بھی یہ کہا گیا کہ اگر کسی محلے میں کوئی مرد عورت آ کر آباد ہو جائیں تو انہیں میاں بیوی سمجھا جائے گا اور غیرضروری تجسس اور گمان سے گریز کیا جائے گا۔ ان اقدار کے مطابق جب ایک معاشرہ تشکیل پایا تو لوگ گروہ در گروہ اس میں شامل ہوتے گئے۔ کسی جبر سے نہیں‘ اپنی مرضی سے۔
اب ایک دوسرے سماج کی تصویر دیکھیے۔ یہ چار صدیاں پہلے کا یورپ ہے۔ ایک مذہبی عدالت میں گلیلیو مجرم کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ اس کا جرم یہ ہے کہ وہ زمین کو متحرک مانتا ہے۔ اہلِ مذہب کو اس کے خیالات سے اتفاق نہیں۔ اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خیالات سے رجوع کرے ورنہ سزا کے لیے تیار ہو جائے۔ برونو کا انجام اس کے سامنے تھا جسے مذہبی عدالت کے حکم سے جلا دیا گیا تھا۔ گلیلیو اس انجام سے دوچار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے مذہبی عدالت کے روبرو اپنے خیالات سے رجوع کیا اور کہا کہ وہ کلیسا کے ساتھ کھڑا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ گلیلیو نے تو رجو ع کر لیا‘ زمین نے نہیں کیا۔ وہ اسی طرح سورج کے گرد گھومتی رہی۔
اس روش کا انجام کیا ہوا؟ اہلِ مذہب کے خلاف ایک بڑی تحریک برپا ہوئی جس نے مذہب ہی کو رد کر دیا۔ اہلِ کلیسا سے کہا گیا کہ وہ مذہب اور خود کو کلیسا کی چار دیواری میں قید کر لیں۔ ریاست اور سماج میں مذہب اور ان کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے اسی میں عافیت جانی۔ چار سو برس ہو گئے‘ مذہب کلیساکی چار دیواری سے نہیں نکل سکا۔ اگر وہ اس پر اکتفا نہ کرتا تو شاید کلیسا کا وجود ہی مٹ جاتا۔
ہم اپنے معاشرے کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ ہمارا آئیڈیل کون سا معاشرہ ہے؟ وہ جو رسالت مآبﷺ کی راہنمائی میں قائم ہوا اور جس میں حسنِ ظن ہے یا پھر یورپ کا وہ معاشرہ جہاں محض اختلاف اور گمان کی بنیاد پر لوگوں کی جان‘ مال اور عزت پر حملوں کو روا رکھا جاتا تھا؟ جہاں مجیب الرحمن شامی جیسے خادمِ دین و ملت کو اپنے ایمان کی وضاحت دینا پڑے؟
یہ شامی صاحب ہوں‘ کوئی عالم ہو‘ سیاست دان ہو‘ ملک کا وزیراعظم ہو‘ منصف ہو‘ سب سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ امام مالکؒ رسالت مآبﷺ کی قبر مبارک پر گئے اور قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: 'ہر کسی کا قول رد ہو سکتا‘ سوائے صاحبِ قبر کے‘۔ اس امت کے اہلِ علم کا تعامل اسی پر رہا۔ لوگوں نے اختلاف کیا مگر کسی کے ایمان پر انگلی اٹھائی نہ کسی کی پگڑی اچھالی۔ مولانا زاہد الراشدی نے اپنے اسلاف کی اسی سنت کو برقرار رکھا۔ انہوں نے ایک مضمون لکھا اور شائستگی کی اُس روایت کو نبھاتے ہوئے‘ جو حسنِ ظن پر قائم ہے‘ شامی صاحب سے اختلاف کیا۔ کچھ علما شامی صاحب کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے سامنے اپنا مؤقف رکھا۔ یہ اختلافِ رائے کے اظہار کا ایک اچھا انداز ہے جس کی تحسین ہونی چاہیے۔
اس کے برخلاف بھی ایک رویہ سامنے آیا جو بدقسمتی سے روز افزوں ہے۔ یہ دشنام اور اتہام کا مرقع ہے جس کا اسلامی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا گیا اور ایک صاحبِ ایمان کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا۔ یہی رویہ ہے جو تشدد پر ابھارتا ہے اور فساد بداماں گروہوں کو جنم دیتا ہے۔ اسی سے سرگودھا اور سوات جیسے واقعات جنم لیتے ہیں۔ افسوس کہ کئی علما بھی اس رو میں بہہ جاتے ہیں۔
آج اگر مجیب الرحمن شامی صاحب جیسی شخصیت کو اپنے ایمان کی وضاحت دینا پڑی ہے تو پھر سوچنا ہو گا کہ ہم کس راستے پر چل نکلے ہیں۔ یہ رویہ سماج کو مذہب سے دور کر رہا ہے۔ ہر آدمی اس خوف میں مبتلا ہے کہ نہ جانے کب کوئی اس پر توہینِ مذہب کا الزام لگا دے اور کسی وضاحت سے پہلے ہی وہ عوامی جذبات کے بھینٹ چڑھ جائے۔ اس خوف کے باعث‘ مذہب عوامی مباحث سے نکلتا جا رہا ہے۔ لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دوسروں کے بارے میں حسنِ ظن رکھیں اور کسی کے ایمان پر شک نہ کریں۔ اگر کوئی شکایت ہے تو متعلقہ آدمی سے بات کریں۔ کہیں کوئی جرم ہو گیا ہے تو پھر عدالت سے رجوع کریں۔ اس بات کو جمعہ کے خطبات کا موضوع ہونا چاہیے اور دینی جماعتوں کے کارکنو ں کی تربیت گاہوں میں بھی اس پر بات ہونی چاہیے۔
میری علما سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اس رویے کے حوالے میں اپنے کارکنوں اور عوام کی تربیت کریں۔ عوام کو خوف سے نکالیں اور انہیں بتائیں کہ اللہ کا دین سرتاپا سلامتی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ معاشرہ جینے کے قابل نہیں رہے گا۔