قمری سال کو سنِ ہجری یا اسلامی سال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلامی عبادات زکوٰۃ‘ روزہ اور حج کا تعلق قمری سال سے ہے۔ خاتم النبیینﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کسی اہم واقعے کی مناسبت سے اپنی تاریخ کو یاد رکھتے تھے‘ جیسے ایک عرصے تک ''واقعۂ اصحابِ فیل‘‘ اس کیلئے معیار بنا رہا۔ مسلمانوں کے تاریخی حوالے کیلئے ہجری کیلنڈر کا باقاعدہ استعمال رسول اللہﷺ کے دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروقؓ نے کیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ حضرت فاروقِ اعظمؓ کی جانب سے یمن کے گورنر تھے‘ ان کے پاس حضرت عمرؓ کے فرامین آتے تھے جن پر تاریخ درج نہیں ہوتی تھی۔ 17 ہجری میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے توجہ دلانے پر حضرت عمرؓ نے صحابۂ کرام کو جمع کیا اور مشاورت کے بعد قرار پایا کہ اسلامی کیلنڈر کی بنیاد واقعۂ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتدا ماہِ محرم سے کی جائے۔
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے: اسلامی قمری سال سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کے مقابل شمسی سال غیر اسلامی ہے‘ ہماری عبادات میں سے نماز کے اوقات‘ روزے کے سحر و افطار کے اوقات اور مناسکِ حج کے بعض اُمور شمسی نظام سے متعلق ہیں۔ دراصل نظامِ شمس و قمر دونوں اللہ کی تخلیق ہیں اور اُس کے مقررہ تکوینی نظام کے تابع ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''سورج اور چاند (اللہ کے مقررہ) ضابطے کے پابند ہیں اور (زمین پر بچھا ہوا) سبزہ اور درخت (اپنی اپنی نوع کے مطابق اللہ کے حضور) سجدہ ریز ہیں‘‘ (الرحمن: 5 تا 6)۔ ''اور سورج اپنے مقررہ راستے پر رواں دواں ہے‘ یہ بہت غالب بے حد علم والے (خالق) کا بنایا ہوا نظام ہے اور چاند کیلئے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں‘ یہاں تک کہ (مہینے کے آخر میں) وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے‘ نہ تو سورج کی مجال ہے کہ (چلتے چلتے) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب سیارے اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں‘‘ (یس: 38 تا 40)۔ اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام میں ابتدائے آفرینش سے سال بارہ مہینوں پر مشتمل رہا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''بیشک جس دن سے اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا‘ اُس کی کتابِ (تقدیر )میں (سال بھر کے) مہینوں کی تعداد بارہ ہے‘ ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں‘ یہی دینِ مستقیم ہے‘‘ (التوبہ: 36)۔
ملتِ ابراہیمی میں چار مہینے حُرمت والے چلے آ رہے تھے‘ ان میں جنگ وجدال کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل حدیثِ پاک میں بیان ہوئی ''سال بارہ مہینے کا ہے‘ ان میں سے چار حُرمت والے ہیں‘ تین تو متواتر آتے ہیں: ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ اور محرم الحرام اور ایک مہینہ ''رجبِ مُضَر‘‘ ہے جو جمادی الثّانیہ اور شعبان المعظم کے درمیان واقع ہوتا ہے‘‘ (بخاری: 4662)۔ ان میں محرم الحرام ابتدائے آفرینش سے ہی حُرمت والا ہے‘ اس ماہ کا ایک دِن جسے یومِ عاشور کہا جاتا ہے‘ عشر سے مشتق ہے‘ اس کے معنیٰ ''دس‘‘ کے ہیں۔ عاشور سے مراد ماہِ محرم کا دسواں دن ہے۔ بعض اہلِ علم کا قول ہے: اس دن کو عاشور اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے دس انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی خصوصی نعمتوں کا نزول فرمایا: اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: (1) زمین پر اترنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی (2) حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا (3) طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سلامتی کے ساتھ کوہِ جودی پر کنارے لگی (4) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اسی دن اُن پر نارِ نمرود گلزار ہوئی (5) حضرت یوسف علیہ السلام کو صحیح سالم کنویں سے باہر نکالا گیا (6) حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات ملی اور فرعونی سمندر میں غرق ہوئے (7) حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے صحیح سالم ساحل پر اُگل دیا اور اسی دن اُن کی اُمّت کا قصور معاف ہوا (8) حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری سے صحت یابی ملی (9) حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک عطا ہوا اور سلطنت سے نوازا گیا (10) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور انہیں آسمانوں پر اٹھایا گیا۔ یہ روایات ہیں‘ حقیقتِ حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ امام احمد بن حسین بیہقی لکھتے ہیں: ''حضرت عمرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں یومِ عاشور کی فضیلت دی ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو یومِ عاشور میں پیدا کیا اور اسی طرح زمینوں‘ آسمانوں‘ عرش‘ کرسی اور لوح وقلم کو اسی دن پیدا کیا۔ حضرت جبریل و ملائک اور حضرت آدم و حوا اور جنت کو اسی دن پیدا کیا اور انہیں اس میں ٹھہرایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یومِ عاشورکو پیدا ہوئے اور اسی دن اُنہیں نارِ نمرود سے نجات ملی‘‘ (فضائل الاوقات‘ ص: 441)۔ الغرض سانحۂ کربلا سے پہلے بھی یومِ عاشور کو مُکرم ومُعظم مانا جاتا تھا۔ ایک حدیث شریف کی رُو سے قیامت بھی دس مُحرم جمعۃ المبارک کو وقوع پذیر ہو گی۔
اس دن کے روزے کی فضیلت بھی احادیث میں آئی ہے: (1) ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا: یہود یومِ عاشور کاروزہ رکھتے ہیں‘ رسول اللہﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو‘ انہوں نے جواب دیا: یہ ایک عظیم دن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعونیوں کو غرق کر دیا‘ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا) شکر ادا کرنے کیلئے اس دن کا روزہ رکھا اور ہم بھی (ان کے اتباع میں) اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہاری بہ نسبت موسیٰ علیہ السلام سے ہمارا تعلق زیادہ ہے‘ چنانچہ رسول اللہﷺ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابۂ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا‘‘ (مسلم: 1130)۔ (2) ''حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہﷺ نے یومِ عاشورکا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا‘ تو انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں‘ آپﷺ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا‘ تو ہم (مشابہت سے بچنے کیلئے) ان شاء اللہ نو ودس محرم (دو دن) کا روزہ رکھیں گے‘‘ (مسلم: 1134)۔ (3) ''حضرت علیؓ سے ایک شخص نے سوال کیا: رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سا مہینہ ہے‘ جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: میں نے ایک شخص کے سوا کسی کواس کے بارے میں سوال کرتے ہوئے نہیں سنا‘ اس نے رسول اللہﷺ سے یہی سوال کیا تھا‘ میں اس وقت آپﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا‘ اس نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! رمضان کے بعد ایسا کون سا مہینہ ہے‘ جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں‘ آپﷺ نے فرمایا: اگر تم رمضان کے روزوں کے بعد (نفلی) روزے رکھنا چاہتے ہو تو محرم کے روزے رکھو‘ کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور بعد میں آنے والوں کی توبہ بھی اس مہینے میں قبول فرمائے گا‘‘ (ترمذی: 741)۔ (4) ''حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں: قریش زمانۂ جاہلیت میں یومِ عاشور کا روزہ رکھتے تھے‘ پھر رسول اللہﷺ نے (عہدِ اسلام میں) اس کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا‘ حتیٰ کہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: (اب) جو شخص چاہے یومِ عاشور کا (نفلی) روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے‘‘ (مسلم: 1125)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے: ابتدائے اسلام میں یومِ عاشور کا روزہ واجب تھا‘ بعد میں اب اس کی حیثیت نفلی روزے کی ہے۔ لہٰذا جن احادیثِ مبارکہ میں یومِ عاشور کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا‘ وہ سنّت و استحباب کے درجے میں ہے۔ پھر 61 ہجری میں سانحۂ کربلا محرم الحرام کا سب سے بڑا عنوان قرار پایا‘ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی ہر مسلمان کے ذہن میں امام عالی مقام اور اُن کے اعوان و انصار رضی اللہ عنہم کی بے مثال قربانیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔