اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

پاک روس تعلقات

وزیراعظم شہباز شریف اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے تجارت اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانے اور کثیر الجہتی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا ہے۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانا میں ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف نے روسی صدر کو جلد از جلد پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت دی جبکہ پاک روس بین الحکومتی تعاون کا اگلا اجلاس ماسکو میں بلانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ دونوں ممالک کی جانب سے تجارت‘ توانائی‘ دفاع اور سلامتی سمیت باہمی مفاد کے تمام شعبوں میں کثیر جہتی تعاون کو مضبوط کرنے اور مزید وسعت دینے کے عزم کا اعادہ باہمی تجارت‘ جس کا حجم اس وقت ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے‘ کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ روس دنیا کی ایک قابلِ ذکر قوت ہے اور علاقائی ہمسائیگی کے ناتے پاکستان اور روس میں پُراعتماد اور مضبوط تعلقات معاشی ترقی کیلئے بھی ضروری ہیں۔ پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے جبکہ صنعتی و معاشی ترقی کیلئے توانائی کے وسائل میں اضافہ ناگزیر ہے۔ روس اس سلسلے میں ایک بہتر آپشن ثابت ہو سکتا ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کے شعبوں میں روسی کمپنیوں کی قابلیت اور صلاحیت مسلمہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے گزشتہ دورِ حکومت میں روس سے تیل درآمد بھی کیا جا چکا جبکہ حالیہ ملاقات میں بھی تیل کی درآمد کے معاہدے کی تجدید زیرِ غور آئی۔ گزشتہ سال دونوں ممالک کراچی سے سینٹ پیٹرز برگ‘ بحری تجارت کا سنگِ میل بھی عبور کر چکے جبکہ روس نے تاجکستان‘ ازبکستان اور افغانستان کے راستے پاکستان تک زمینی رابطہ استوار کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ پاکستان روس سے توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا خواہاںہے جبکہ دونوں ممالک میں کراچی سے قصور تک ڈھائی ارب ڈالر کی گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی طے پا چکا ہے۔ عالمی پابندیوں کے سبب پاک سٹریم (نارتھ ساؤتھ) گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا۔ اب جبکہ توانائی کے شعبے میں روس پر انحصار بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے تو اس منصوبے کو بھی بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ روس مشین سازی‘ ادویات اور آئی ٹی سمیت تمام اہم صنعتوں میں ترقی یافتہ دنیا کے ہم پلہ ہے لہٰذا دونوں ممالک متعدد شعبوں میں ایک دوسرے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور روس میں انسدادِ دہشت گردی اور خطے میں اقتصادی تعاون اور تجارت کو فروغ دینے کے حوالے سے افغانستان سمیت کئی علاقائی معاملات پر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور یہ ہم آہنگی بھی دونوں ممالک میں بہتر تعلقات کی ایک بنیاد ثابت ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں روس پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگرچہ روس کی تکنیکی اور مالی مدد سے پاکستان سٹیل مل اور گڈو تھرمل پاور پلانٹ کی تعمیر باہمی تعلقات کامنہ بولتا ثبوت ہے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پون صدی پہ محیط سفارتی تعلقات نوے کی دہائی تک قدرے اتار چڑھائو کا شکار رہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دونوں ممالک تجارتی و اقتصادی تعاون بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اگرچہ اس وقت عالمی پابندیوں کے سبب بینکنگ چینل کے مسائل موجود ہیں مگر بارٹر سسٹم ایک متبادل ثابت ہو سکتا ہے اور تھوڑی سے توجہ سے برآمدات میں کثیر اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ کورونا کی عالمی وبا اور یوکرین جنگ کے سبب عالمی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ اب بیشتر ممالک مخدوش عالمی اقتصادی حالات میں علاقائی تعاون کو فروغ دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور نئے معاشی بلاکس وجود میں آ رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ روس سے مضبوط اور مربوط تعلقات پاکستان کیلئے وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کی منڈیوں کے دروازے کھولنے کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں