اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

امن و امان کو لاحق خطرات

حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات نے ایک بار پھر ملک میں امن و امان کے خطرات کی جانب توجہ مبذول کی ہے۔ منگل کے روز خیبر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان کے رورل ہیلتھ سنٹر پر فائرنگ اور بنوں چھائونی پر حملے کے دو مختلف واقعات میں 10 جوانوں سمیت پندرہ افراد شہید ہو گئے جبکہ کلیئرنس آپریشن میں 13 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ صدرِ مملکت‘ وزیراعظم‘ وزیر داخلہ اور اپوزیشن لیڈر سمیت سیاسی و سماجی قیادت نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے بجاطور پر اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک سے دہشت گردی کا عفریت ختم کرکے دم لیں گے۔ وزیراعظم کا یہ بیان پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قوم اور افواجِ پاکستان شانہ بشانہ کھڑے ہیںاور بزدل دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنیوالوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ گزشتہ روز بھی گوادر میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی مگر سکیورٹی فورسز اور بم ڈسپوزل سکواڈ نے بروقت کارروائی کر کے دہشتگرد کارروائی کی کوشش ناکام بنا دی۔ سکیورٹی فورسز کی مسلسل کارروائیاں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں انتھک عزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ حالیہ عرصے میں ملک کے مغربی علاقوں میں دہشتگردی کے خطرات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق‘ جنوری تا جون‘ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے 1063 واقعات پیش آئے اور اس دوران پاک فوج نے 22 ہزار سے زائد آپریشن کیے جن میں 111 جوان شہید اور 354 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ اوسطاً سکیورٹی فورسز کی جانب سے ہر روز 126آپریشنز کیے جا رہے ہیں جنہوں نے دہشتگردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ دہشتگردی کے ان واقعات میں کون ملوث ہے‘ یہ سکیورٹی اداروں سمیت ملک و قوم کیلئے اب کوئی راز کی بات نہیں۔ دہشتگردی کے لگ بھگ سبھی واقعات میں دہشتگردوں کا تعلق اسی مخصوص گروہ سے ملتا نظر آتا ہے جہاں حالیہ دنوں میں دہشتگردی کے اکثر واقعات کا کھرا ملتا ہے۔ امن و امان کے ان چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے فوج اور سکیورٹی فورسز کیساتھ ساتھ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انسدادِ دہشتگردی فورسز کی نفری بڑھا کر اور جدید حربی آلات سے ان چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹا جا سکتا ہے۔ یقینا سکیورٹی ادارے اس سے غافل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنی منصوبہ بندی اور کارکردگی سے وہ دہشتگردی کے بہت سے حملوں کو ناکام بنانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں مگر ان کامیابیوں کے باوجود درپیش خطرات کی جانب سے غافل نہیں ہوا جا سکتا ہے۔ دہشتگردوں کے خلاف مضبوط عزم اپنانے کیلئے اندرونی استحکام اور یکسوئی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے دہشتگردی کے خلاف آپریشن عزمِ استحکام پر اتفاقِ رائے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ ضروری ہے کہ جلد از جلد اس کانفرنس کا انعقاد یقینی بنایا جائے تاکہ دہشتگردی کے حوالے سے متفقہ عزم اپنایا جا سکے۔ اگرچہ آپریشن کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں مگر یہ اسی صورت ثمر آور ثابت ہو سکتا ہے جب عسکری حلقے اور سیاسی و سماجی قیادت اس حوالے سے یکسو ہو۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمارے سیاسی حلقے اپنے گروہی مفادات و اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اسمبلیوں کے اندر اور باہر سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے کی سعی کریں۔ دوسری جانب سرحد پار دہشت گردوں کو ملنے والی محفوظ پناہ گاہوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتِ پاکستان کو افغان عبوری حکومت سے تحفظات کے بار بار اظہار کے علاوہ بیک چینل ڈپلومیسی کو بھی بروئے کار لانا چاہیے۔ افغان حکومت کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی ایک مشترکہ مسئلہ ہے جس سے مل کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں