ہر دور میں حق اور باطل مدمقابل آئے ہیں اور سچائی کا راستہ اختیار کرنے والوں کی زندگی کسی دور میں بھی آسان نہیں رہی۔ سچ کا راستہ اختیار کرنے والوں کی راہ مشکل ہوتی ہے۔ اس میں ہجرت‘ جان و مال کا ڈر اور زرق کی تنگی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات اپنے ہی لوگ جانی دشمن بن جاتے ہیں اور اپنی سرزمین تنگ پڑ جاتی ہے۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو مختلف طرح کی آزمائشوں سے آزماتا ہے‘ اس کے بعد کامیابی ان کا مقدر بنتی ہے۔ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلی بار بیت اللہ کی زیارت کی سعادت نصیب فرمائی تو میں صفا و مروہ کی سعی کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ شیرخوار اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ صحرا میں حضرت ہاجرہ نے کتنی مشکلات دیکھی ہوں گی۔ اب تو سعودی عرب نے بہت ترقی کرلی ہے مگر تب تو یہ سارا علاقہ ویران اور بے آب و گیاہ صحرا تھا۔ اب تو آلِ سعود نے حجاج اور زائرین کے لیے بہترین انتظامات کیے ہوتے ہیں اور زائرین اے سی میں طواف کرتے ہیں لیکن حضرت ہاجرہ کے پاس تو پانی تک نہیں تھا اور وہ پیاس سے بلکتے بچے کے لیے پانی تلاش کر رہی تھیں۔ کسی بھی ماں کے لیے اس کا بچہ اس کی کُل کائنات ہوتا ہے۔ وہ بھی اس وقت اپنی کُل کائنات بچانے نکلی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ شیر خوار اسماعیل علیہ السلام کے قدموں میں آبِ زم زم رواں کر دیا۔ یہ پانی ہم سب کے لیے نعمت اور اللہ تعالیٰ کا زندہ معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور آنے والی بہت سی نسلوں کیلئے ایک مثال قائم کرنا تھی۔ ماں اور بیٹے کی محبت سے قدرت کے ایک معجزے کی تاقیامت باقی رہنے والی نشانی نے وجود میں آنا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہو یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جدوجہد‘ تمام برگزیدہ لوگوں کی زندگی مشکلات اور امتحانات سے بھرپور تھی۔ جب نبوت بنی اسرائیل سے بنو اسماعیل میں آئی تو یہودیوں اور عیسائیوں نے خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کی نبوت کی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود ان سے چشم پوشی کی اور ان کی مخالفت شروع کر دی۔ یہاں تک کہ کفارِ مکہ نبی کریمﷺ کے دشمن بن گئے۔ دعوت و تبلیغ اسلام میں آپﷺ کو بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ نبوت کے چند سال بعد آپﷺ کی اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور چچا ابو طالب وفات پا گئے۔ اس سال کو نبی کریمﷺ نے غم کا سال قرار دیا گیا۔ انبیاء کرام بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور ان کو بھی غم اور مصائب رنجیدہ کر دیتے تھے۔ تاہم ان غموں کو ہمارے لیے مثال بنایا گیا کہ ہم اپنے دکھوں اور مصائب پر برگزیدہ لوگوں کی طرح صبر کریں۔ اللہ تعالیٰ توکل اور صبر سے مصائب کا سامنا کرنے والوں کو ہمت دیتا اور ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابولہب نے نبی کریمﷺ کو رنج دینے کیلئے آپ کو ذاتی طور پر ایسا دکھ دیا کہ جو بطور والد کسی بھی انسان کو بہت رنج پہنچا سکتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی دو صاحبزادیاں‘ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے منسوب تھیں۔ ابولہب نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ نبی کریمﷺ کی بیٹیوں کو طلاق دے دو۔ انہوں نے ایسے ہی کیا اور اس عمل سے نبی پاکﷺ کو شدید رنج ہوا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی صاحبزادیوں کو حضرت عثمان غنیؓ جیسا خاوند عطا فرما دیا۔ پہلے حضرت رقیہؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ کے ساتھ ہوا اور یہ دونوں مکہ سے حبشہ اور بعد ازاں حبشہ سے مدینہ ہجرت کر کے صاحب الہجرتین یعنی دو ہجرتوں والے کہلائے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت رقیہؓ بیمار ہوئیں تو نبی کریمﷺ نے حضرت عثمان کو ان کی تیمارداری کی خاطر جنگ میں شرکت سے منع فرمایا اور نہ صرف آپؓ کو مجاہدین میں شمار کیا بلکہ مالِ غنیمت میں آپؓ کا حصہ بھی رکھا۔ حضرت رقیہؓ کا وصال ہوا تو نبی کریمﷺ نے سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کر دیا۔ اللہ تعالیٰ یہ مثال قائم کرنا چاہتے تھے کہ نبی کی بیٹیاں مشرک اور ناپاک مردوں کے نکاح میں نہیں رہ سکتیں۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمہؓ فاتح خیبر حضرت علیؓ بن ابی طالب کے عقد میں آئیں۔ یہ ہر لحاظ سے مثالی جوڑی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو جنت کے دو شہزادوں‘ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ سے نوازا۔ یہ دونوں بچے اپنے نانا کے بہت لاڈلے تھے۔ سیدنا حسینؓ کو گھٹی سرورِ کائنات نبی کریمﷺ ہی نے دی تھی۔ آپؓ کی تربیت بھی اپنے نانا کے زیر سایہ ہوئی۔ حدیث مبارکہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘ جو حسین سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا (سنن ترمذی)۔ اللہ کے رسولﷺ نے پیشگی ہی یہ فرما دیا تھا کہ حسینؓ سے محبت مجھ سے محبت ہے اور حسینؓ سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے۔ آگے چل کر یہ تمام باتیں حقیقت میں بدل گئیں۔ سیدنا حسینؓ کا بچپن اور دورِ جوانی اسلام کے عروج کا زمانہ تھا۔ اسلامی ریاست مشرق سے مغرب تک پھیل رہی تھی۔
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ نے حضرت معاویہؓ سے صلح کر لی اور خلافت سے اپنی دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے حضرت معاویہؓ کی بیعت کر لی۔ بیس سال تک حضراتِ حسنین کریمینؓ نے اس بیعت کی پاسداری کی۔ حضرت معاویہؓ کی وفات کے بعد یزید نے حکمرانی سنبھالی تو حضرت حسین بن علی‘ عبداللہ بن زبیر‘ عبدللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سمیت جید صحابہ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا۔ کوفہ کے لوگوں نے سیدنا حسینؓ کو خط لکھنا شروع کر دیے اور آپؓ کو عراق آنے کی دعوت دی۔ امام حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجا تو اہلِ کوفہ نے ان کے ہاتھ پر امام حسینؓ کی خلافت پر بیعت کر لی۔ دوسری طرف یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا۔ اس نے کوفہ آتے ہی تمام سرداروں کو قتل کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ ابن زیاد کے ظلم و ستم کے سبب کوفہ والے اپنے عہد سے پھر گئے۔ عبیداللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بھی شہید کر دیا۔ سیدنا حسینؓ کو راستے میں جب مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی خبر ملی تو آپؓ کو ابن زیاد کے تیور اور کوفہ والوں کے رویے سے آگاہی ہو گئی۔ آپؓ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ تنہا رہ گئے لیکن اس کے باوجود آپؓ نے یزید کی بیعت نہیں کی۔ ابن زیاد کے لشکر نے کربلا کی سرزمین پر آپؓ کے لشکر کا محاصرہ کیا اور دریائے فرات کا پانی آپؓ کے قافلے کیلئے بند کر دیا۔ بچوں اور خواتین کو بھی کوئی رعایت نہیں دی گئی۔ بالآخر سیدنا حسینؓ کے لشکر کے تمام مردوں کو دس محرم الحرام 61ھ کو شہید کر دیا گیا۔ سیدنا حسینؓ نے اپنا سر کٹوا دیا مگر پورے عالم اسلام کے لیے اصولوں پر ڈٹے رہنے کی مثال قائم کر دی کہ مسلم حکمران کی بیعت آزادانہ ہو‘ اس میں کسی قسم کا جبر شامل نہ ہو۔ آج اگر ہم امتِ مسلمہ کی حالت دیکھیں تو یزید اور ابنِ زیاد جیسے حکمران اور خاموش کوفی زیادہ نظر آئیں گے۔ حسینی کردار کے حامل بہت کم ہیں جو جابر حاکم کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت رکھتے ہوں۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یزید کا دورِ حکمرانی بہت کم تھا۔ وہ محض 38 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔ اس وقت کے لوگ بھی اس سے نفرت کرتے تھے اور آج چودہ سو سال بعد بھی لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ آج یزید نفرت اور لعنت ملامت کا ایک استعارہ بن چکا ہے۔ اُس وقت بھی کچھ لوگ چپ رہے اور آج بھی بہت سے لوگ چپ ہیں اور اُن برائیوں کے خلاف آواز نہیں بلند کرتے جس پر ان کو آواز اٹھانی چاہیے۔ مگر کربلا کی مٹی میں آج بھی سیدنا حسینؓ اور ان کے خاندان کی قربانی کی مہک رچی بسی ہے۔ یہ مٹی ہم سب سے ایک سوال کرتی ہے کہ ہم حسینیت کے ساتھ ہیں یا یزیدیت کے ساتھ۔ واقعۂ کربلا انسان کو فکری آزادی اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنے کا سبق دیتا ہے۔ سچ اور انصاف کے لیے قربانی دے کر حضرت حسینؓ نے ہم سب کو عزت و وقار کے ساتھ جینے کا درس دیا۔ وہ ہر اُس انقلابی کے لیے آزادی کا استعارہ ہیں جو کسی غاصب سے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں کوشاں ہے۔