اللہ جبار و قہار کے خوف سے طاقتور انسانوں کے دل خالی ہو گئے۔ غزہ پر ظلم کی رات لمبی ہو گئی۔ اس قدر لمبی کہ اس کی طوالت دس مہینوں پر پھیل گئی۔ اصل اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں مظلوم انسان شہید ہو چکے ہیں مگر شہداء کی تعداد کم بتائی جا رہی ہے۔ ہزاروں افراد ملبے تلے دفن ہیں۔ اس جنگ کو اب دنیا بھولنے لگی ہے۔ ساڑھے پانچ سے چھ لاکھ تک لوگ زخمی ہیں۔ بمباری اور ظلم کا سلسلہ جاری ہے۔ خیمہ بستیوں کا حال یہ ہے کہ ہر بستی دس سے بارہ جگہیں تبدیل کر چکی ہے مگر ہر جگہ بمباری اور ظلم کی آندھی نے جان نہیں چھوڑی۔ اسرائیل کی فوج اور حکومت جو کہنے کو ایک اللہ کو ماننے والی ہے‘ حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا باپ اور حضرت حوا کو اپنی ماں تسلیم کرنے والی ہے‘ وہ بنی آدم پر ظلم و ستم روکنے پر تیار نہیں۔ مسیحی افواج اور ان کے حکمران اس وقت سپر پاور ہیں۔ جنگ روکنے کے ادارے اور عالمی قوانین کی قوتِ نافذہ ان کے پاس ہے۔ وہ بھی ایک اللہ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں‘آدم و حوا کو انسانیت کے والدین مانتے ہیں مگر ظلم کے بازار میں بہتے خون اور اڑتے گوشت کے ٹکڑوں کو دیکھنے کے باوجود ظلم کو کھلی چھٹی دیے چلے جا رہے ہیں۔ اہلِ اسلام کی دنیا پچاس سے زائد ممالک پر مشتمل ہے۔ مذمت کے بیانات سے آگے بڑھنے کی وہ ہمت نہیں رکھتے۔ ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج کرکے باہم قتل کا جو چلن ہے وہ رکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایسے حالات میں سوچا کہ ساڑھے چودہ سو سال پیچھے جائوں اور تینوں کو ایک آئینہ دکھلائوں۔
دنیا کی سپر پاور '' مشرقی رومن ایمپائر‘‘ تھی۔ اس کا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا۔ بادشاہ کا نام ''ہرقل‘‘ تھا۔ یورپ‘ ایشیا اور افریقہ کے بیشتر علاقے اس سپرپاور کا حصہ تھے۔ آج کا شام‘ فلسطین‘ اسرائیل‘ اردن‘ لبنان اور غزہ سمیت صحرائے سینا کا علاقہ مصر سمیت اس میں شامل تھا۔ مسلمانوں نے یہ سارے علاقے حضورﷺ کے وصال کے محض پانچ‘ چھ سال میں فتح کر لیے۔ یہ حضرت فاروق اعظمؓ کا زمانہ تھا۔ ان کی افواج کے سالار حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ تھے۔ یروشلم انتہائی مقدس شہر تھا۔ یہ رسولوں اور نبیوں کا شہر تھا۔ یہود اور مسیحیوں کا قبلہ تھا۔گزشتہ پانچ سو سال سے یہاں مسیحیوں کی حکمرانی تھی۔ یہود کا یہاں داخلہ ممنوع تھا۔ دنیا کی سپر پاور اب اہلِ اسلام کے پاس آ رہی تھی۔ عالم اسلام کے آرمی چیف ابو عبیدہ بن جراحؓ نے اس شہر کا محاصرہ کر لیا۔ یروشلم کے راہب اور بشپ‘ جو یروشلم کے حکمران بھی تھے‘ سمجھ گئے کہ اب یروشلم کی باری آ گئی ہے۔ انہوں نے ہرقل کو عسکری مدد کی درخواست بھیجی مگر سارا مشرقِ وسطیٰ مسلمانوں کے کنٹرول میں تھا‘ مدد کیسے پہنچتی؟ پیٹریارک سوفرونیوس نے مجبور ہو کر ابوعبیدہ بن جراحؓ کو پیغام دیا کہ اگر امیر المؤمنین عمرؓ شریف لے آئیں تو شہر کی چابیاں ان کے حوالے کردی جائیں گی۔
حضرت خالدؓ بن ولید نے جابیہ میں امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظمؓ کا استقبال کیا اور پھر یہ قافلہ یروشلم کی جانب چل پڑا۔ یروشلم کے حکمران اور رعایا گزشتہ کئی دنوں سے امیر المؤمنین کا انتظار کر رہے تھے۔ حکمرانوں کے بارے میں صدیوں سے جو روایات چلی آ رہی تھیں‘ وہی ان کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں کہ حضرت عمرؓ جو تین براعظموں کے حکمران ہیں‘ جن کی حکومت عالمی سپر پاور ہے‘ ان کا لباس بیش قیمت اور ریشمی ہوگا‘ اس پر موتیوں اور نگینوں کا جڑائو جھلمل کرتا اور روشنیاں بکھیرتا ہو گا۔ سر پر ہیرے اور یاقوت سے مزین سونے کا تاج ہوگا۔ تیز رفتار گھوڑے ہوں گے۔ سرخ اونٹوں پر آرام دہ ہودج ہوں گے۔ آگے پیچھے شمشیر زنوں اور تیراندازوں کے دستے ہوں گے۔ نیزوں اور بھالوں کا باوردی رعب دار دستہ الگ ہوگا۔ جلال آسمان کی رفعتوں کو چھو رہا ہوگا۔ ایک دن دور سے قافلے کے آثار دکھائی دیے تو دیکھتے ہی دیکھتے یروشلم کی پہاڑیاں عورتوں‘ بچوں اور مردوں سے بھرنے لگ گئیں۔ شہر کی فصیلوں پر لوگ ہی لوگ تھے۔ شہر کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک میدان تھا۔ اسلامی افواج کے دستے اپنے کمانڈروں کی کمان میں یہاں موجود تھے۔ پیٹریارک سوفرونیوس بھی اپنے باوردی دستوں کے ساتھ موجود تھا۔ اس کا لباس‘ دستوں کی خوبصورت وردیاں اور تاج دیکھنے کے قابل تھا۔امیر المومنین کا قافلہ قریب آ چکا تھا۔ اونٹ پر ایک سوار تھا جبکہ اونٹ کی مہار تھامے ایک لمبے قد کا باوقار انسان آگے بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ قافلے کے لوگ مہار تھامنے والے کے ارد گرد تھے۔ انہی پر نگاہوں کا ارتکاز تھا۔ سپہ سالار اور ان کے کمانڈرز تو جانتے تھے کہ امیر المومنین کس قدر سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ اسلامی بیت المال کے بارے میں کس قدر حساس ہیں۔ وہ سمجھ گئے کہ امیر المومنین اور ان کا غلام باری باری ایک اونٹ پر مدینہ منورہ سے چلتے ہوئے آئے ہیں۔ دوسری جانب پیٹریارک سوفرونیوس حیران و پریشان تھا کہ امیر المومنین کون ہیں؟ اونٹ پر بیٹھا آدمی یا پھر مہار تھامنے والا؟ اب امیر المومنین کے سامنے پتھروں پر بہتا صاف شفاف پانی کا ایک نالا آیا‘ امیر المومنین نے جوتا اتارا‘ اسے بائیں بغل میں دابا۔ اسی ہاتھ سے اپنی عبا کو اوپر کیا۔ دائیں ہاتھ میں مہار تھامی اور نالا پار کر لیا۔ اسی اثنا میں سالارِ لشکر آگے بڑھا اور امیر المؤمنین سے معانقہ کیا۔ پیٹریارک سوفرونیوس بھی آگے بڑھا‘ اور چابیاں ہاتھ مبارک پر رکھ دیں۔ پیٹریارک نے امیر المومنین کی سادگی کے بارے میں جو سن رکھا تھا وہ حقیقت تصور سے بڑھ کر اب سامنے تھی۔ اللہ کی محبت سے سرشار‘ للہیت کا موجیں مارتا ایک دریا تھا جس نے شفاف نالا پار کیا تھا۔اس کا کردار اس چشمے کے شفاف پانی سے کہیں بڑھ کر شفاف تھا۔
راحت و آرام اور اکلِ طعام کے بعد یروشلم شہر کا دورہ ہوا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: وہ جگہ کون سی ہے جہاں سے میرے حضور ﷺ آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے؟ اس چٹان کے پاس لے جایا گیا تو وہاں کوڑا کرکٹ پھینکا ہوا تھا۔ صدقے جائوں سپر پاور کے فاتح حکمران کے کہ کوڑے کو خود صاف کرنا شروع کردیا۔ کسی کو حکم نہ دیا۔ عاجزانہ کردار پیش کیا۔ اب بھلا صفائی میں کون پیچھے رہ سکتا تھا؟ یہی وہ جگہ ہے جہاں اب سونے کا ''قبۃ الصخرہ‘‘ ہے۔ امیر المومنین اور پیٹریارک اب دورہ کرتے ہوئے مسیحی برادری کے مرکزی چرچ میں پہنچے تو نمازِ ظہر کا وقت ہو گیا۔ پیٹریارک نے چرچ میں نماز ادا کرنے کی پیشکش کی تو امیر المومنین نے معذرت کرتے ہوئے کہا: چرچ میں نماز کا عمل آنے والے وقت میں باعثِ نزاع ہو سکتا ہے‘ اسے مسجد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ امیر المومنین نے چرچ سے باہر ایک کھلی جگہ نماز کی امامت فرمائی۔ یہیں اب ''مسجد عمر‘‘ ہے۔ یہ کردار دیکھ کر پیٹریارک نے چرچ کی چابیاں بھی حضرت عمرؓ کو دے دیں۔ یہ چابیاں ایک مقامی عرب خاندان کے حوالے کی گئیں اور آج بھی یہ چابیاں اسی خاندان میں ہیں۔ یہ ہے امانتوں اور دیانتوں بھرا کردار امیرالمومنین کا اور اہلِ اسلام کا۔ سبحان اللہ! الحمد للہ!
معاہدہ طے پایا تو اس میں یہود اور مسیحی افراد سمیت سب کو مذہبی آزادی دی گئی۔ جان و مال کی گارنٹی دی گئی۔ مسیحی برادری نے درخواست کی کہ امیرالمومنین! یہود یہاں داخل نہیں ہو سکتے تھے‘ اب آپ نے انہیں داخلے کی اجازت دی ہے تو گزارش ہے کہ انہیں یہاں رہائش کی اجازت نہ دیں۔ حضرت عمرؓ نے انکی بات مان لی اور کہاکہ یہ آئیں‘ عبادت کریں اور چلے جائیں۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مسیحی برادری نے اس درخواست کو پس پشت ڈالا اور یہودی لوگوں کو یہاں بسانا شروع کر دیا۔ پھر 1948ء میں اسرائیل کے وجود کا اعلان ہو گیااور آج غزہ میں ظلم جاری ہے۔ دنیا بھر کے مسیحی عوام اس کے خلاف احتجاج کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ ہم یاد دلائے دیتے ہیں کہ غزہ میں ایک ہزار مساجد ہی بمباری سے ملیا میٹ نہیں ہوئیں‘ بیسیوں چرچ بھی ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ اے دنیا بھر کے حکمرانو! ہم حضرت عمرؓ کا پُرامن کردار یاد دلاتے ہیں۔ آج کی مہذب دنیا میں آپ کا کردار کہاں ہے؟