اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاسی خلفشار کے مضمرات

ملک میں سیاسی خلفشار اور عدم استحکام روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے منفی اثرات سے معیشت و معاشرت سمیت کوئی بھی شعبہ محفوظ نہیں ہے۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سرمایہ کار ہمیشہ مستحکم سیاسی ماحول ہی کو ترجیح دیتے ہیں مگر ہمارا معاملہ بالکل الٹ ہے۔ ہمارا سیاسی بحران اس قدر گہرا اور پیچیدہ ہو چکا ہے کہ اب معیشت کیساتھ معاشرت کو بھی ٹھیس پہنچا رہا ہے۔ اگر سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر سے بھی متجاوز ہو چکا ہے‘ جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کا حصہ‘ گزشتہ مالی سال میں 13.14 فیصد تھا‘ جو 50سال کی کم ترین سطح ہے۔ توانائی کی قیمتوں کی بات کی جائے تو خطے میں سب سے مہنگی بجلی پاکستان میں فروخت کی جا رہی ہے۔ ایک صنعتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مہنگی توانائی کے سبب ملک کی پچیس فیصد صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔ ایسے میں بیروزگاری کے گراف میں کس قدر اضافہ ہو گا‘ یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ ایسا ملک جس کی معیشت دو فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہو‘ وہ مستقبل کے چیلنجوں کے مقابلہ کیونکر کر سکتا ہے؟ مردم شماری کی حالیہ جاری کردہ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی لگ بھگ 80 فیصد آبادی 40 سال سے کم عمر ہے۔ یقینا کثیر نوجوان آبادی ملک کا بہت بڑا اثاثہ ہے مگر وسائل نہ ہونے کے سبب یہ افرادی قوت ملک کیلئے ایک بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ اگرچہ حکومت برآمدات میں اضافے‘ زرمبادلہ کی صورتحال بہتر ہونے اور ٹیکس محصولات میں اضافے پر شاداں ہے مگر دنیا کسی معاشرے کو محض معاشی پیمانوں پر نہیں پرکھتی بلکہ اب سیاسیات‘ معاشیات اور سماجیات کو یکجا کر کے دیکھا جاتا ہے۔ کہنے کو بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے لیکن اگر سماجی سطح پر تفریق بڑھتی جا رہی ہو تو ایسا معاشی حجم کس کام کا؟ عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے حال ہی میں پاکستان کی صورتحال کی جو منظر کشی کی ہے اس میں ملکی معیشت کے سنبھلنے کی نوید کے باوجود سیاسی عدم استحکام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ماہرینِ معیشت اب اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے قرض مل جائے‘ تب بھی ملکی معیشت میں بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس کی وجہ وہ سیاسی خلفشار ہے جو معیشت کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ یقینا یہ حالات ہماری سیاسی قیادت کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوں گے مگر اس کے باوجود سیاسی قیادت کچھ سمجھنے‘ سوچنے اور اپنی اَنا کی قربانی دینے پہ مائل دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت کے لڑھکنے کا عمل رکنے ہی میں نہیں آ رہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں سٹاک ایکسچینج میں سوا تین ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی سیاسی عدم استحکام ہی کا شاخسانہ ہے۔ اگر آج سیاسی معاملات انتشار و تقسیم کی اس سطح پر نہ ہوتے جہاں آج ہیں تو پورے تیقن سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشی حالات قدرے بہتر ہوتے۔ اگرچہ معاشی بحران کے عوامل اندرونی و بیرونی‘ ہمہ گیر اور دہائیوں پہ محیط ہیں مگر اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ سیاسی تقسیم نے مالیاتی بحران کیلئے عمل انگیز کا کام کیا ہے۔ اس حقیقت کو جلد از جلد تسلیم کرنا ہو گا کہ جب تک سیاسی مصالحت کا راستہ نہیں نکالا جاتا‘ معاشی زوال کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ داخلی سلامتی اور استحکام کے ساتھ کھلواڑ کر کے ہم نہ معاشی طور پر ترقی کر سکتے ہیں اور نہ سماجی خوشحالی ہی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔ سیاسی مفاہمت کے بغیر اس کھائی سے نکلنا ممکن نہیں اور مفاہمت کیلئے ضروری ہے کہ ہر فریق اپنی غلطی تسلیم کرے۔ اس کیلئے ایک دوسرے کو معاف کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے اور معاف کرنا اسی صورت ممکن ہے جب ذہن انتقام کے جذبے سے پاک ہو۔ کیا ہماری سیاسی قیادت ملک و قوم کی خاطر یہ قربانی دینے کو تیار ہے؟ قومی درد رکھنے والے غیر سیاسی حلقوں کو بھی اس نازک مرحلے پر بروئے کار آنا چاہیے اور سیاسی انتشار اور عدم استحکام کے خاتمے میں حسبِ استعداد اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں