اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی

سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف تادیبی کارروائی پاک فوج میں احتساب کی روایت‘ قانون کی پاسداری اور ادارہ جاری نظم و ضبط کی عکاس ہے۔ سابق جنرل کے خلاف متعدد الزامات اور شکایات عدالتوں میں اور بیرونِ عدالت زیر بحث رہی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر میں اسی نوعیت کی ایک شکایت کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ سابق فوجی افسر کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات سے چشم پوشی کی گنجائش نہیں کہ یہ الزامات سچ ثابت ہوئے تو ملکی اداروں کی ساکھ کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہوں گے۔پاک فوج نے اپنے بیان میں جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کو سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے آبرزرویشن کے بعد سابق جنرل کے خلاف ادارہ جاتی انکوائری کا آغاز کیاگیا جس میں انہیں قصور وار پایا گیا ؛ چنانچہ ان کے خلاف کورٹ مارشل کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز کر دیاگیا ہے۔ فیض حمید پاک فوج کے افسران کی طرح یقینا باصلاحیت افسر تھے مگر انہوں نے غیر فوجی امور میں جو شہرت پائی اس نے ان کے عسکری مقام و مرتبے کو نقصان پہنچایا اور بالآخر انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔ ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے ان کے خلاف جو الزامات سپریم کورٹ میں زیر سماعت آئے‘ مالی بدعنوانی کی جانب اشارہ کرتے ہیں‘مگر فیض حمید کے نامہ اعمال میں بہت سی سیاسی چالیں‘ بے ثمر حکمت عملیاں اور ایسی پھرتیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے صرف انہیں ہی نہیں ان کے ادارے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔ مثال کے طور پر افغانستان میں طالبان کی واپسی کے ہنگام کابل کے ایک ہوٹل میں چائے کے کپ کے ساتھ اُن کی تصویر اُس ملک کی داخلی تبدیلی میں پاکستان کی غیر ضروری دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔ جنرل (ر) فیض حمید پر سیاسی دھڑا بازی اور اس سلسلے میں عسکری قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی ہیں جبکہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ بادی النظر میں ایک اعلیٰ سابق فوجی افسر کے خلاف اس کارروائی کے کئی اثرات ہوں گے۔ مسلح افواج کا نظم و ضبط فوجی افسران اور جوانوں سے قانون کی مکمل پاسداری کا تقاضا کرتا ہے جبکہ فیض حمید پر جس قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں ان کا منفی اثر مسلح افواج کی ادارہ جاتی شہرت پر بھی ہے۔ جس کا ازالہ کرنے کیلئے ادارہ جاتی سطح پر انکوائری اور مزید کارروائی ضروری ہے۔ اس اقدام سے یہ تاثر ملتا ہے کہ افواجِ پاکستان اپنے ڈسپلن‘ تشخص اور معیار کے معاملے میں کس قدر محتاط اور چوکس ہیں۔ یہ کارروائی دیگر قومی اداروں کیلئے بھی مثال ہونی چاہیے۔ ہر ادارہ اگر اپنے معاملات میں بیدار ہو تو اداروں کے اندر بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور اداروں کی کارکردگی کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ ایک سابق لیفٹیننٹ جرنیل‘ جو کور کمانڈر اور ملک کی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسی کی سربراہی کر چکا ہے‘ کے خلاف اس قانونی کارروائی کو ادارہ جاتی احتساب کی روایت کیلئے بطور ایک مثال یاد رکھا جائے گا۔ احتساب کا عمل اداروں کو داخلی سطح پر مضبوط کرتا ہے۔ افواج کیلئے یہ ناگزیر ہے مگر ریاست کے دیگر اداروں کیلئے بھی اس کی اشد ضرورت ہے۔ ذرا سوچیں اگر پولیس اور نظام عدل کے ادارے بھی اپنے ہاں شفافیت اور قانون کی پاسداری یقینی بنانے کیلئے اسی درجے کی ذمہ داری کا ثبوت دیں تو ملک عزیز میں ٹرانسپرنسی کا درجہ کس قدر بڑ ھ سکتا ہے۔ہم جس ترقی یافتہ دنیا کی مثالیں دیتے ہیں اُس میں اور ہم میں یہی فرق ہے کہ وہاں احتساب کا کڑا نظام ریاست کے ہر پُرزے کی نگہداشت کرتا ہے‘ یوں ریاست کی پوری مشینری اپنے افعال میں درست کام کرتی ہے‘ جبکہ ہمارے ہاں قانون‘ ضابطے ہونے کے باوجود من مانی کا راج ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں